وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے پانی بحران اجلاس کے دوران کوئٹہ میں پینے کے پانی کی کمی اور اس ضمن میں عوام کو درپیش مشکلات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ پی ایچ ای اور واسا کو صورتحال کی بہتری کے لئے شہر میں واٹر ایمرجنسی کا نفاذکرتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ہدایت کی ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ انہیں پانی کے حوالے سے کوئٹہ کے عوام کی تکالیف کا بخوبی اندازہ ہے اور ان کی خواہش ہے کہ ان تکالیف کا فوری ازالہ کیا جائے جس کے لئے متعلقہ اداروں کو تمام دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کوئٹہ کی 23لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کے لئے روزانہ 61ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے تاہم تمام دستیاب ذرائع کے ذریعے 34.8ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے اور 26.2 ملین پانی کی کمی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ شہر میں واسا کے 406اور پی ایچ ای کے 160ٹیوب ویل نصب ہیں جبکہ فنڈز کی دستیابی کی صورت میں دشت کے علاقے میں قبضہ مافیا سے واگزار کرائے گئے10ٹیوب ویلوں اور سریاب پیکج کے تحت 30نئے تنصیب شدہ ٹیوب ویلوں کو بھی پانی کی فراہمی کے نظام سے منسلک کیا جائے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پانی کے وسائل اور ذخائر میں اضافے کے لئے پی ایچ ای اور واسا کے جاری ترقیاتی منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ مجوزہ منصوبوں کو منظوری کے لئے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ واساکے انتظامی امور کی بہتری اور تنظیم نو کی جائے گی۔
پینے کے پانی کے معیار کو جانچنے اور زیر زمین پانی کے ذخائر کی مقدار اور جگہ کی معلوما ت کے لئے جیالوجیکل سروے آف پاکستان کی معاونت سے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ اجلاس میں اس بات کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ برج عزیز ڈیم، حلک ڈیم اور بابر کچھ ڈیم کے مجوزہ منصوبوں کی فزیبلیٹی رپورٹ فوری طور پر تیار کرکے ان منصوبوں کے لئے وسائل کا انتظام کیا جائے گا۔
اجلاس میں کوئٹہ میں زیرزمین پانی کے ذخائر کا جائزہ لینے، پانی کی تقسیم کے نظام کی بہتری اور پانی کے بہتر استعمال کے طریقہ کار کی سفارشات کی تیاری کے لئے آبی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی جبکہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور نکاسی آب کے نظام کی بہتری کے لئے بھی ماہرین کی خدمات لی جائیں گی۔
اجلاس میں نجی طور پر ٹیوب ویلوں کی تنصیب کی حوصلہ شکنی اور روک تھام کے لئے ٹیوب ویل نصب کرنے والی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ پانی فراہم کرنے والے ٹینکروں اور ٹیوب ویلوں کو بھی رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں واسا کو پانی کے بلوں کی وصولی کے ذریعہ محاصل بڑھانے کی ہدایت کی گئی تاہم پانی کے بل عام آدمی کے بجائے سرکاری محکموں، تجارتی مراکز اور صاحب حیثیت لوگوں سے وصول کئے جائیں گے۔ اجلاس میں پی ایچ ای کی جانب سے سرکاری واٹر سپلائی اسکیموں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے کی اصولی طور پر منظوری دی گئی جبکہ واسا مجسٹریٹ کی خالی آسامی پر فوری تعیناتی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ تمام ڈپٹی کمشنر اپنے اپنے اضلاع میں پانی کا معیار جانچنے کے لئے اس کا ٹیسٹ کروائیں اور ایسی تمام نجی ہاؤسنگ اسکیموں کے این او سی معطل کردیں جہاں پانی، سینی ٹیشن سمیت دیگر ضروری سہولتیں فراہم نہیں کی جارہیں۔
انہوں نے واسا کو ہدایت کی کہ پانی کی بچت اور اس کے بہتر استعمال کے لئے جامع اور موثر آگاہی مہم شروع کی جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی حکومتوں نے پانی بحران پر قابو پانے کے اعلانات کئے تھے مگر ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا اس کی ایک اہم وجہ محکموں کے آفیسران کی ہٹ دھرمی بھی ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ شہر میں ناجائز ٹیوب ویلز لگائے گئے ہیں اور ٹینکرز مافیا نے اسے کاروبار میں تبدیل کردیا ہے جس کی پشت پناہی بااثر شخصیات کررہی ہیں اگر سب سے پہلے غیر قانونی ٹیوب ویلز کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے تو کسی حد تک شہر میں پانی کی زیر زمین گرتی سطح پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
نیز گزشتہ ادوار میں جن منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی تھی ان پر ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا جائے اوراس کے ساتھ ان کی مانیٹرنگ بھی کی جائے تاکہ ان منصوبوں کو تعطل کا شکار بنانے والے عناصر اپنی جیب گرم نہ کرسکیں جو کہ عرصہ دراز سے منصوبوں کے نام پر کرپشن کررہے ہیں۔
نئی حکومت اور وزیراعلیٰ سے یہی توقع ہے کہ پانی بحران پر قابو پانے کیلئے جو فیصلے ہوئے ہیں ان پر جنگی بنیادوں پر عملدرآمد بھی کرایا جائے گاتاکہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع صحرا میں تبدیل نہ ہوں اور عوام کو نقل مکانی کی اذیت نہ جھیلنا پڑے۔
کوئٹہ میں پانی کا بحران، نئی حکومت کے اقدامات
وقتِ اشاعت : August 31 – 2018