|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2018

2013ء میں بننے والی مخلوط حکومت نے2018تک اپنے پانچوں بجٹ کے دوران اربوں روپے محکمہ صحت کی بہتری کیلئے مختص کئے تھے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایمرجنسی نافذ کرکے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھرمیں صحت کے شعبے میں بہتری لائی جائے گی مگر بدقسمتی سے حال ہی میں ڈیرہ بگٹی جو نہ صرف صوبہ بلکہ ملک کا اہم ترین علاقہ ہے جہاں گیس کے بڑے ذخائر سے بھرپور مالی منافع کمایاجارہا ہے ۔

مگر وہاں زچگی کے دوران ایک ماہ میں تین اموات ہوئیں جسے اس علاقے کی بدبختی یا نااہل حکمرانوں کی ظالمانہ روش کہاجائے کیونکہ جو علاقہ ملک بھر کو گیس فراہم کرتا ہے ، اربوں روپے کا حکومتی خزانہ کو فائدہ پہنچاتا ہے مگر وہاں ایک ایسا ہسپتال موجود نہیں جہاں عوام کو صحت کی سہولیات میسر آسکیں۔ 

اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کے عوام تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں افسوس کا عالم ہے کہ اربوں روپے جو صحت کیلئے مختص کئے گئے تھے وہ کہاں خرچ کئے گئے، اس کا کوئی جوابدہ نہیں۔بلوچستان کے ایک ضلع ڈیرہ بگٹی کی یہ صورتحال ہے دیگر اضلاع کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کے دعویدار حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں۔ 

بلوچستان کی مقامی سیاسی جماعتیں جب صوبہ کے ساتھ مخلص نہیں تو مرکز سے کیسے گلے شکوے ۔ اس جدید دور میں بھی زچگی کے دوران اموات کا واقع ہونا حیران کن ہے اور حکمرانوں کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے کہ معصوم خواتین دوران زچگی موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ بلوچستان کی ترقی کے بڑے بڑے دعوے آج بھی کئے جاتے ہیں۔ 

مرکز میں بننے والی حکومتوں کی بھی ترجیحات میں کبھی بھی بلوچستان نہیں رہا اور نہ ہی یہاں کے مسائل کو سنجیدگی سے لیاگیا اس کے برعکس صوبے کے وسائل کو لوٹنے پرسارا زور ہے۔ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہمیشہ یہی بیانیہ سننے کو ملا کہ بلوچستان کی محرومیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیاگیا مگر یہ اعتراف نہیں کیاجاتا کہ نااہل طرز حکمرانی اور بلوچستان کے ساتھ عدم دلچسپی نے اس صوبہ کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سونا اگلنے والی سرزمین کے عوام کو کچھ بھی میسر نہیں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں خوراک کی کمی کے باعث اموات زیادہ ہوتی ہیں مگر کبھی ان علاقوں کا سروے نہیں کیا گیا ۔ مرکز میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو بلوچستان کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں البتہ وہ ان علاقوں سے ضرورواقفیت رکھتے ہیں جہاں وافر مقدار میں وسائل موجود ہیں تاکہ ہر قسم کا فائدہ اٹھایاجاسکے ۔

جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو ان سے ان کوکوئی سروکار نہیں اور نہ ہی بلوچستان سے متعلق ملکی میڈیا یہاں کے بنیادی مسائل کو زیر بحث لاتی ہے جس سے عوام کا کچھ بھلا ہوسکے ۔ 

بلوچستان کا ذکر صرف دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات اور سیاسی جوڑ توڑ کے حوالے سے ہی سنا جاتا ہے مگر مسائل کے پیچھے موجود وجوہات کو جاننے کیلئے حکمرانوں کے پاس وقت ہی نہیں کہ بلوچستان میں موجود انسانی بحرانات پر قابو پانے کیلئے جامع پالیسی مرتب کر سکیں۔ 

اور جنہوں نے بلوچستان کے وسائل پر اپنے ہاتھ صاف کئے ہیں ان کے گریبانوں پرہاتھ ڈالاجائے۔ نئی بننے والی حکومت نے بھی ملک میں تبدیلی کے ساتھ بلوچستان میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا ہے اگر مرکزی حکومت یہاں کے دور دراز علاقوں کے مسائل کیلئے سروے ٹیم تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے ساتھ ملکر پالیسی مرتب کرے تو یقیناًبہت سے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔


امید ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں بلوچستان کے اہم مسائل شامل ہونگے جنہیں حل کرنے کیلئے خلوص نیت سے کام کیا جائے گا۔