وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو قوم سے اپنے خطاب میں ملک میں پانی کی کمی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے فوری حل کی ضرورت پر زور دیا اور بیرون ملک پاکستانیوں سے نئے ڈیم بنانے کے لیے قائم کیے گئے فنڈ میں دل کھول کر عطیات دینے کی اپیل کی۔
تحریک انصاف کی حکومت کو جہاں ملک کی ابتر معاشی صورت حال سمیت کئی چیلنجوں کا سامنا ہے وہاں ان میں پانی کا مسئلہ بھی سر فہرست ہے جس کے بارے میں عمران خان نے کہا کہ 2025 تک ملک کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے قائم کیے گئے فنڈ کو وزیر اعظم فنڈ میں ضم کر رہے ہیں ۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگرہم نے اب بھی کچھ نہیں کیا تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ نئے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہو چکی ہے کیونکہ ملک کی کل آبادی کی پانی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔
پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش کا انڈیا سے موازنہ کرتے ہوئے جس کی آبادی پاکستان سے کہیں زیادہ ہے عمران خان نے کہا کہ بھارت میں ایک سو نوے دن تک اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ مصر کے پاس ایک ہزار دن تک اپنی ضرورت پوری کرنے کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔
عمران خان نے مسئلہ کی سنگینی کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اوسطاً ایک ملک کے پاس ایک سو بیس دن تک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد ہر ایک فرد کے لیے ملک میں پانچ ہزار چھ سو مربع میٹر پانی موجود تھا جو اب گھٹ کر صرف ایک ہزار مربع میٹر رہ گئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ماہرین کے مطابق اگر ہم نے ڈیم نہیں بنائے تو پاکستان میں آئندہ سات برسوں میں یعنی 2025 میں خشک سالی شروع ہوجائے گی، ہمارے پاس اناج اگانے کے لیے پانی نہیں ہوگا تو اپنے لوگوں کے لیے اناج نہیں ہوگا جس کے نتیجے میں یہاں قحط پڑسکتا ہے لہٰذا آج سے ہم نے ڈیم بنانا شروع کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے اسی حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور وہ چیف جسٹس ڈیم فنڈ اور وزیراعظم فنڈ کو اکھٹا کر رہے ہیں۔پاکستان کے وزیراعظم نے چیف جسٹس ڈیم فنڈ سے متعلق مزید بتاتے ہوئے کہا کہ یہ چیف جسٹس کا کام نہیں تھا بلکہ یہ ہماری طرح کی سیاسی قیادت کا کام تھا، چیف جسٹس فنڈ میں اب تک 180 کروڑ روپے جمع ہو چکے ہیں۔
سب سے پہلے تو سارے پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی پاکستانی ہیں اور پاکستان میں بھی موجود سارے لوگ اپنے مستقبل کے لیے اس ڈیم کے فنڈ میں پیسہ آج سے دینا شروع کریں۔اوورسیز پاکستانی ڈیم فنڈ میں کم از کم ایک ہزار ڈالر فی کس بھیجیں تو 5 سال میں ڈیم بنا سکتے ہیں،ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔
پیسے نہیں ہوں تو دیر لگتی ہے اور دیر ہوئی تو وہ ہوگا جو نیلم جہلم منصوبے میں ہوا تھا جہاں 80 ارب روپے میں ایک ڈیم بننا تھا لیکن آج اس کا خرچہ 500 ارب روپے سے اوپر چلا گیا ہے۔اگر بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی اس ڈیم فنڈ میں ایک ہزار ڈالر بھیجے تو ہم دونوں ڈیم بھی بنا سکتے ہیں۔
ہمارے پاس ڈالرز بھی آجائیں گے اور ہمیں کسی سے قرضہ نہیں مانگنا پڑے گا۔واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا تھا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری شروع کی جائے اور اسی سلسلے میں انہوں نے عوام سے چندے کی اپیل بھی کی تھی۔ چیف جسٹس ڈیم فنڈ کو دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم 2018 کا نام دیا گیا۔
ملک میں پانی کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے جس کی وجہ ماضی کے حکمرانوں کی اس اہمیت نوعیت کے مسئلہ پر عدم توجہی ہے جنہوں نے منصوبوں کے اعلانات تو کئے مگران پر عملدرآمد نہیں کیا ، اور پانی کے ذرائع پر سرمایہ کاری نہیں کی گئی ۔
یہ سابقہ حکومتوں کی نا اہلی ہے جنہوں نے اربوں ڈالر قرضے تو لئے مگر اس رقم کو کہاں اور کس پر خرچ کیا گیا ، کوئی حساب کتاب نہیں، جبکہ قرضوں کا سارا بوجھ عوام پر ٹیکس کی مد میں ڈال دیا گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے عوام سے ڈیم بنانے کے لیے فنڈز دینے کی اپیل کی ہے یقیناًعوام اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینگے مگر ضروری ہے کہ حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہوئے اس کی آمدن پر زیادہ توجہ دے تاکہ جلدازجلد ڈیموں کی تعمیر ممکن ہوسکے۔ موجودہ حکومت نے قومی خزانے سے لوٹی گئی رقم بیرونی ممالک سے واپس لانے کیلئے ٹاسک فورس قائم کرکے ایک بہترین کام کیا ہے ۔
امید ہے حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی تبھی اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے ورنہ یہ اعلان بھی سابقہ حکومتوں کی طرح وقت گزاری پر معمول ہوگا، اور قومی خزانہ ہر نئی بننے والی حکومت کو خالی ملے گا۔