اسلام آباد: سپریم کورٹ نے باپ کو بیٹی کے 16 سال کے اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں بچپن میں والدین کی طلاق سے متاثرہ بچی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ لڑکی تطہیر فاطمہ نے عدالت سے درخواست کی کہ سرکاری دستاویزات سے باپ کا نام خارج کردیا جائے کیونکہ ساری زندگی نہ کبھی وہ مجھے ملے اور نہ ہی پرورش کے اخراجات دیے۔
چیف جسٹس نے تطہیر فاطمہ کے والد سے استفسار کیا کہ اپنے فرائض سرانجام کیوں نہیں دیئے اور کفالت کیوں نہیں کی؟۔ والد شاہد ایوب نے جواب دیا کہ میری بیٹی مجھے کبھی نہیں ملی اور اس کی والدہ نے میری ہمیشہ بے عزتی کی ہے، عدالت جو حکم کرے تعمیل کروں گا۔ تطہیر فاطمہ کے والدہ نے کہا کہ شاہد ایوب کو میں نے دس سال بھگتا ہے جس نے میرے اوپر کیچڑ اچھالا۔
تطہیر فاطمہ نے بتایا کہ یہ وہ باپ ہے جس نے کبھی میرا نام تک نہیں لیا، سرکاری دستاویزات بنوانے کے لیے والد کا نمبر جن مشکلات کے بعد ملا مجھے معلوم ہے، لیکن انہوں نے اپنا شناختی کارڈ دینے سے بھی انکار کردیا، فارم ب میں نام درج کروانے کے لیے رابطہ کیا تو والد نے کہا تھانے چلی جاوٴ، اگر یہ بیٹی مانتے ہیں تو نادرا میں میرا نام کیوں انکے نام کیساتھ رجسٹر نہیں؟، میرانام تطہیر فاطمہ بنت پاکستان کردیں۔
چیف جسٹس نے شاہد ایوب کو تطہیر فاطمہ کے گزشتہ برسوں کی کفالت کے اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا تو شاہد ایوب نے کہا کہ میں غریب آدمی ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قرض لیں ، بھیک مانگیں یا ڈاکہ ڈالیں مگر اخراجات دیں، 16 سال تک والد نے بیٹی سے ملنے کوشش نہیں کی، بیٹی کہتی ہے والد کے خانے سے نام نکال دیں، معصوم بچی کو والد کی شفقت نہیں ملی، بچی کے ساتھ جو ظلم کیا ،اس کا مداوا کون کرے گا؟، بیٹی کہتی ہے کہ میرے باپ کی جگہ پاکستان کا نام لکھا جائے، اگر آپ والد ہونا تسلیم نہیں کرتے تو میں اس بچی کا والد ہوں۔