بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے پانی بحران کا سامناکررہا ہے جس کی وجوہات اس وقت یہ سمجھی جارہی تھیں کہ منصوبوں میں تاخیر ہے مگر حالیہ کرپشن کے انکشافات نے صوبہ کو بدنامی سے دوچار کردیا ہے۔
کوئٹہ واٹر سپلائی منصوبو ں پرلاگت کا تخمینہ 7 ارب روپے لگایا گیا تھا مگر یہ رقم 10ارب تک جاپہنچی ۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس منصوبے کیلئے 1505 کلومیٹر پائپ لائن کے نقشہ جات پاس ہونے کا کوئی ریکارڈ کیوسب کے پاس نہیں۔
پانی فراہمی منصوبے کی پائپ لائن اتنی طویل بچھائی گئی ہے جوکوئٹہ شہر کی حدود سے زیادہ ہے جبکہ اس منصوبہ کی 90 فیصد ادائیگی تعمیراتی کمپنی کو کردی گئی ہے ۔لیکن منصوبہ پر 30فیصد بھی کام نہیں ہوا ہے، یہ منصوبہ 2003ء میں شروع کیا گیا تھا ۔
نیب بلوچستان نے اس پر نوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔گزشتہ دنوں بلوچستان کے ساحلی علاقوں پسنی، جیونی اور گڈانی کیلئے پینے کے صاف پانی کے ایک ارب روپے سے زائد کی لاگت سے بننے والے تین واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹس میں سرکاری وسائل کے ضیاع اور مبینہ کرپشن کامعاملہ سامنے آیا ہے جس پر نیب نے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور دیگر ذمہ داران کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔
بلوچستان میں پانی کا بحران اس قدر شدت اختیار کرگیا ہے کہ آئندہ چندبرسوں کے دوران کوئٹہ سمیت دیگر علاقے صحرا میں تبدیل ہوجائینگے اور لوگ یہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہونگے۔ اس سے قبل بھی بلوچستان کے بعض اضلاع میں قحط کی وجہ سے بڑی تعداد میں مال مویشی مرگئے تھے اور زرعی زمینیں بنجر بن چکی تھیں۔
آج بھی حالات یہی ہیں کہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے زرعی زمینیں تباہ ہوکر رہ گئی ہیں ۔ بلوچستان میں زراعت ایک بہت بڑا شعبہ ہے جس سے لوگوں کی بڑی تعداد کا روزگار وابستہ ہے مگر پانی بحران کے باعث معاشی طور پر زمینداروں کو نقصان پہنچ رہا ہے لیکن اس جانب کسی بھی حکو مت نے توجہ نہیں دی ۔
گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان میں پانی بحران پر قابو پانے کیلئے منصوبوں کا آغاز کیاجارہا ہے مگر جن منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ تعطل کا شکار ہیں جنہیں جان بوجھ کر مکمل نہیں کیاجارہا ان منصوبوں سے کرپٹ عناصر فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی حالت تو یہ ہے کہ وہاں کے مکین بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔
ٹینکرز کے ذریعے گوادر سمیت دیگر علاقوں کو پانی فراہم کیا جارہا ہے اور اس کا بھاری بھرکم بوجھ حکومتی خزانے سے پورا کیا جارہا ہے۔ اگر ماضی کے حکمران پانی کے اسکیموں کی تفصیلات طلب کرتے اور ان میں تاخیر کے وجوہات جاننے کی کوشش کرتے تو صوبہ کو اربوں روپوں کا نقصان نہیں اٹھاناپڑتا۔
موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پانی کے متعلق جتنے منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی ہے ان کا ریکارڈ طلب کرکے اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لینے کیلئے متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام سے بریفنگ لیں تاکہ ان منصوبوں سے متعلق علم ہوسکے کہ یہ کہاں تک مکمل ہوئے ہیں اور بلاتفریق ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے جو ان منصوبوں میں کرپشن کے مرتکب پائے جائیں۔
بلوچستان میں پانی اسکیمیں کرپشن کی نذر
وقتِ اشاعت : September 14 – 2018