|

وقتِ اشاعت :   September 15 – 2018

پاکستان ابھی تک آر سی ڈی اور ای سی او کارکن ہے۔ ان تین بنیادی اور کلیدی ممالک میں پاکستان ‘ ایران اور ترکی شامل ہیں۔گزشتہ ساٹھ سالوں میں امریکا کی رہنمائی میں بغداد پیکٹ ‘ سیٹو اور بعد میں آر سی ڈی اور ای سی او بنا جن کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ ان ممالک کے درمیان تعلقات کو زیادہ فروغ دیا جائے اور ان کے درمیان تجارت ‘ باہمی رابطے ‘ اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

اس کے لئے مارشل پلان کے تحت ایک منصوبہ بنایا گیا تھا کہ ایک سڑک کراچی ( اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ) کو تہران اور استنبول سے ملایا جائے۔عراق میں بادشاہت کے خاتمہ کے بعد عراق کے بغداد پیکٹ سے علیحدہ ہونے کے بعداس کا ناسنٹو ہائی وے رکھ دیا گیا۔ 

جب ایران میں انقلاب آیا تو فوجی معاہدہ ختم ہوگیا اور اس کا نام تبدیل کرکے آر سی ڈی رکھ دیا گیا۔یہ بنیادی طورپر تین ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کا معاہدہ تھا اس کے بنیادی مقاصد میں ریل ‘ روڈ کی ترقی شامل تھی۔ پاکستان نے 1980ء کی دہائی میں سنجیدگی کے ساتھ ملک کے اندر سڑک کی تعمیر شروع کردی۔

آر سی ڈی ہائی وے کراچی اور ایرانی سرحد تک تعمیر کی گئی۔ 125 سال قبل برطانوی حکومت نے کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے تعمیر کی ، بنیادی طورپر یہ فوجی نقل و حمل کے لئے تھا تاکہ ہنگامی صورت حال میں فوج کو جلد سے جلد افغانستان اور ایران کی سرحد تک پہنچایا جا سکے بعد میں اس میں مسافر اور کارگو ٹرینیں چلائی گئیں اور لوگوں کی آمد و رفت کے لئے آسانیاں پیداکی گئیں۔

دوسری طرف ایران نے زاہدان سے کرمان تک ریلوے لائن تعمیر کرکے پورے ریلوے کو بین الاقوامی ریل کے نظام سے منسلک کردیا جبکہ ہمارے یہاں کوئٹہ ،زاہدان ریلوے اس وقت بین الاقوامی ریلوے نظام کا پسماندہ ترین حصہ بن چکا ہے۔حکومت پاکستان گزشتہ ستر سالوں میں اس کی ترقی کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے 35ریلوے اسٹیشن بالکل ویران پڑے ہیں اربوں کے اثاثے ضائع ہورہے ہیں۔ 

گوادر پورٹ کے پہلے مرحلے کی تعمیر کے بعد یہ تجویز دی گئی تھی کہ گوادر کی بندر گاہ کو کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے کے ذریعے بین الاقوامی ریلوے نظام سے منسلک کیاجائے گا۔بد نیت حضرات جو اقتدار میں تھے ان لوگوں نے اس تجویز کی بھرپور مخالفت کی بلکہ اس کے بجائے منفی تجاویز دیں کہ ریلوے لائن کو غیر آباد ‘ پسماندہ ترین علاقوں کی طرف موڑا جائے۔

چنانچہ ان عقل مند سیاسی رہنماؤں کی تجویز پر گوادر ریل کو زیادہ پسماندہ علاقوں کی طرف لے جایاگیاجس کی وجہ سے بلوچستان اور اس کی ترقی کے امکانات مزید معدوم ہوگئے ۔چاغی دنیا میں معدنیات کے حوالے سے ایک اہم ترین خطہ ہے اس کی معدنیات کی ٹرانسپورٹ دنیا بھر میں ہوگی یہ بذریعہ ریل اور سمندری راستے سے ہوگی۔چاغی اور گوادر کو ملانے سے بلوچستان میں ترقی کی رفتار زیادہ تیز ہوگی۔ کھربوں ٹن معدنیات کی ٹرانسپورٹ ہوگی۔ 

حیرانگی ہے کہ ترقی پسند حکومت بلوچستان کے ترقی کی مخالف نکلی اور گوادر کی بندر گاہ کو بین الاقوامی ریلوے نظام سے منسلک کرنے کی مخالفت کی۔بین الاقوامی حلقوں کی جانب سے حکومت پاکستان پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ پہلے وہ کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن کو جلد سے جلد اپ گریڈ کرے تاکہ ایران اور ترکی سے براہ راست اور بڑے پیمانے پر تجارت کو فروغ دیا جاسکے ۔

بلکہ ان کی طرف سے یہ تجویز ہے کہ اسلام آباد ‘ تہران اور استنبول کو ریل کی پٹڑی سے ملا کر اس پر جلد سے جلد ریل ٹریفک شروع کیا جائے لیکن کوئٹہ ‘ زاہدان کے درمیان ریلوے ٹریک بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے لہٰذا اس کو جلد سے جلد بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایاجائے۔ 

اسلام آباد ‘ تہران اور استنبول کے درمیان صرف ریل اس وجہ سے نہیں چل سکتی کہ درمیان میں کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن کی بوسیدہ ریلوے ٹریک حائل ہے۔ بلکہ سابقہ حکومت نے کوئی ایسا منصوبہ پیش نہیں کیا۔

جس سے کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن کے ریلوے ٹریک کو نہ صرف اپ گریڈ کیاجاسکے اور اس کو گوادر کی بندر گاہ کے علاوہ بین الاقوامی ریلوے لائن کا حصہ بنایا جاسکے تاکہ اسلام آباد ‘ تہران اور استنبول کے درمیان براہ راست ٹرین چلائی جائے اور ان تینوں ممالک کے درمیان کنٹینر ٹرین سروس شروع کی جاسکے۔

اگر ان تجاویز پر اور منصوبوں پر عمل کیاجاتا اور گوادر کو کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے سے ملادیا جاتا تو ایران ہمارا محتاج ہوتا اور وہ اس بات پر مجبور ہوتا کہ وہ اپنی تجارت بذریعہ ریل پہلے گوادر اور بعد میں زاہدان تک اسی روٹ سے کرے۔

نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس اہم نوعیت کے منصوبے پر کام کرتے ہوئے یہ ثابت کرے کہ وہ بلوچستان کی ترقی چاہتی ہے۔ سابقہ حکومت کی غلطیوں سے یہاں ترقی کی رفتار نہ صرف سست روی کا شکار ہوگئی بلکہ ہم دو اہم ممالک سے تجارتی حوالے سے دور رہے۔ 

اس منصوبے کی تکمیل سے دیگر اہم نوعیت کے تجارتی مواقع پیدا ہونگے جو کہ ہمارے یہاں بہت بڑی معاشی تبدیلی کا سبب بنے گی لہذا یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چائیے۔