|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2018

اسلام آباد: حکومت نے منی بجٹ میں سگریٹ اور مہنگے موبائل فون پر ڈیوٹی بڑھانے اور ای او بی آئی کی کم سے کم پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی طورپر ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے ٗ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا ہماری ترجیح ہے ۔

ارکان اسمبلی کی بجٹ تجاویز پر غور کیا جائیگا ٗاگر ہم نے فیصلے نہ کیے تو زرمبادلہ ذخائر مزید گرسکتے ہیں ٗ موجودہ صورتحال میں خسارہ 7.2فیصد تک پہنچ سکتا ہے ٗ پٹرولیم لیوی ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جائیگا ٗپٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے ٗ انصاف کارڈ کے تحت علاج کیلئے 5 لاکھ 40 ہزار روپے تک اخراجات دیئے جائیں گے ۔

مزدوروں کیلئے 10 ہزار گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے ٗ 8276 گھروں کی تعمیر کے لیے ساڑھے 4 ارب روپے ریلیز کیے جائیں گے ٗ سالانہ 12 لاکھ آمدنی والوں سے اضافی ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا ٗدیامر اور بھاشا ڈیمز کو 6 سال میں تعمیر کیا جائیگا، ڈیم کیلئے مختص رقم میں کوئی کمی نہیں ہو گی ٗوزیراعظم، وزراء اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کم کردی گئی ہے ۔

سی پیک میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ٗ900 درآمدی اشیاء پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5 ہزار درامدی اشیاء ایک فیصد کسٹمز ڈیوٹی لگانے اور نان فائلر کیلئے گاڑی خریدنے پر عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے ٗ بینگ ٹرانزیکشن پر نان فائلر 0.6 فیصد ٹیکس ادا کریگا۔

منگل کو قومی اسمبلی میں ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ معیشت کو استحکام، روزگار اور برآمدات میں اضافہ ہماری ترجیحات ہیں، ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا بھی ہماری ترجیح ہے، ارکان اسمبلی کی بجٹ تجاویز پر غور کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مالیاتی خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ گیا تھا، معاشی طور پر ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے، توانائی کے شعبے میں گزشتہ سال ساڑھے 4 سو ارب روپے کا خسارہ ہوا، گیس کے شعبے میں 100ارب روپے سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے۔

گیس کے تمام معاہدے ڈالر میں ہوتے ہیں، گزشتہ روز کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، اگر ہم نے فیصلے نہ کیے تو زرمبادلہ ذخائر مزید گرسکتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں خسارہ 7.2فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ملک پر بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں ٗ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔

گزشتہ چند ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 20 روپے کمی آچکی ہے ٗروپے کی قدر میں کمی سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ٗروپے کی قدر میں کمی سے پٹرول مزید 20 روپے مہنگا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطرناک معاشی حالات سے نکلنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، قرضے 1200 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، فیصلہ کرنا ہے کیا ہم اسی طریقے سے آگے چلتے رہیں گے یا آگے چلنے کی کوشش کریں گے ٗہمارا مقصد غریب اور متوسط طبقے پر بوجھ کم کرنا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں صوبوں کا مجموعی خسارہ 18 ارب روپے تھا، جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں محصول کی ادائیگیوں کے ہدف میں 300 ارب کا فرق ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کسان کی آسانی کیلئے کھاد کی ترسیل بڑھارہے ہیں، وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا جائے ٗ انصاف کارڈ کے تحت علاج کیلئے 5 لاکھ 40 ہزار روپے تک اخراجات دیئے جائیں گے۔

مزدوروں کیلئے 10 ہزار گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے ٗ 8276 گھروں کی تعمیر کے لیے ساڑھے 4 ارب روپے ریلیز کیے جائیں گے۔اسد عمر نے اعلان کیا کہ امپلائز اولڈ ایج بینفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) پنشنرز کی کم سے کم پنشن میں 10فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔

پٹرولیم لیوی ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جائیگا ٗ پٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے، صنعتوں کیلئے 44 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کرچکے ہیں، ریگولٹری ڈیوٹی کی مد میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو 5 ارب روپے کا ریلیف دے رہے ہیں۔

اسد عمر نے کہاکہ مالی سال 2018 میں 661 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا ٗرواں مالی سال ترقیاتی بجٹ 725 ارب روپے کر دیا گیا ہے ٗ دیامر اور بھاشا ڈیمز کو 6 سال میں تعمیر کیا جائیگا، ڈیم کیلئے مختص رقم میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور سی پیک میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ٗ وزیراعظم، وزراء اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کم کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ 900 درآمدی اشیاء پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5 ہزار درامدی اشیاء ایک فیصد کسٹمز ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے ٗ نان فائلر کیلئے گاڑی خریدنے پر عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ مختلف طریقے سے جو اچھا ہوا اسے رکھیں گے لیکن تبدیلی کی ضرورت بھی ہے۔

30 سال میں ہم نے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی، 10 سال پہلے بھی ہم مشکل حالات میں تھے،یہ ملک اللہ تعالیٰ کی دین ہے، صرف ہمارے آباؤ اجداد کی محنت سے نہیں بنا، یہ ملک اور قوم ضرور ترقی کریں گے۔

وزیر خزانہ کے مطابق بجٹ میں تجویز دی گئی ہیکہ تنخواہ دار طبقے کیلئے سلیب 6 سے بڑھا کر 8 کردیئے اور تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک اضافہ کردیا گیا ٗ زیادہ سے زیادہ ٹیکس 4 لاکھ 80 روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کردیا گیا ٗ بینگ ٹرانزیکشن پر نان فائلر 0.6 فیصد ٹیکس ادا کرے گا۔

نجی ٹی وی کے مطابق 4 سے 8 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ 8 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 2 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ12 سے 24 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 5 فیصد فکسڈ ٹیکس دینا ہوگا ۔

24 سے 30 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر نیا سلیب متعارف کرا دیا گیا ہے ٗ 24 سے 30 لاکھ روپے آمدن پر 60 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ24 لاکھ سے زائد اور 30 لاکھ روپے سے کم آمدن پر 15 فیصد اضافی ٹیکس دینا ہوگا ٗ 30 سے 40 لاکھ روپے آمدن پر 20 فیصد فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ 30 سے 40 لاکھ روپے آمدن پر 150،000 روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ 40 سے 50 لاکھ روپے آمدن پر 25 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا ۔

40 سے 50 لاکھ روپے آمدن پر 3 لاکھ 50 ہزار اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ 50 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 29 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا ٗ 50 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 6 لاکھ روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ 5 سال قبل ملک کا قرضی 16 ہزار ارب روپے تھا ج اس 28 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جبکہ اس میں 2 ہزار ارب روپے شامل نہیں ہیں اور یہ وہ روپے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آرہے۔

انہو ں نے کہا کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کی جو صورتحال ہے وہ سب سے سامنے ہیں، ان اداروں پر جو قرضے ہیں وہ وفاق نے ادا کرنے ہیں تاہم سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ ورکر ویلفیئر بورڈ کے فنڈز کا بھی 40 ارب روپے سے زائد وفاق نے روکا ہوا ہے، جس کی وجہ سے مزدوروں کے 8 ہزار 2 سو گھروں کی تعمیر رکی ہوئی ہے اور مزدوروں کے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی تک نہیں ہورہی۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا واحد صوبہ تھا جس نے 34 ارب روپے کا سرپلس استعمال کیا جبکہ پنجاب نے سب سے زیادہ خسارہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں دکھائے گئے خسارے اور حقیقت میں تقریباً 900 ارب روپے کا فرق ہے اور اگر اقدامات نہ لیں تو بجٹ کا کل خسارہ 2780 ارب روپے تک ہوجائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس ترقیاتی منصوبوں پر 6سو 61 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، جسے اس سال بڑھا کر 7 سو 25 ارب روپے کردیا ہے جس کیلئے فنانشل اصلاحات کی ضرورت ہے۔اسد عمر نے بتایا کہ 725 ارب میں سے 50 ارب کراچی کی ترقی کیلئے مختص کیے گئے ہیں ٗیہ تمام پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیے جائیں گے اور بجٹ پر اس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔

اپنی تقریر کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ 10 سال پہلے بھی مشکل حالات تھے، گزشتہ 30 برس میں دنیا ہم سے بہت آگے جاچکی ہے لیکن من حیث القوم ہم نے مختلف طریقے سے کام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو اچھے کام ہوئے ہم ان کی حمایت کریں گے لیکن اس مشکل وقت سے نکلنے کے لیے ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے اور میرا ایمان ہے کہ یہ ملک مسلمانوں نے بڑی قربانیوں سے حاصل کیا، قائد اعظم کی قیادت اور علامہ اقبال کا خواب تھا، یہ ملک اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور اسی لیے اس ملک کا قیام 27 ویں شب کو ہوا، لہٰذا اس ملک نے ترقی کرنی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک کی ترقی میں سب شراکت دار ہوں گے لیکن یہ پوری قوم کی جدوجہد ہوگی اور انشاء اللہ پاکستان ایسا ملک بننے جارہا ہے کہ نہ صرف ہم بلکہ دنیا بھی اس پر فخر کرے گی۔

بعد اازاں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں صحافیوں کی جانب سے ٹیکس چوروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں حلف لیے ہوئے ساڑھے 3 ہفتے ہی ہوئے ہیں لیکن ہم نے چوروں سے ٹیکس وصولی کرتے 92 ارب روپے کی رقم خزانے میں شامل کردی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا میٹر چلنا شروع ہوگیا ہے ہمیں فوری اقدامات کرنے ہیں اگر ایسا نہ کیا تو ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح سابق حکومت نے بجٹ میں 12 لاکھ روپے سالانہ آمدنی والے افراد کو ٹیکس سے استثنیٰ دیتے ہوئے ایک سے 2 ہزار روپے کا ٹوکن ٹیکس عائد کیا تھا اسے برقرار رکھا گیا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ 2 لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں پر معمولی ٹیکس کا فیصلہ برقرار رکھا گیا البتہ 2 لاکھ روپے ماہانہ سے زائد کمانے والوں پر ٹیکس کی شرح میں معمولی اضافہ کیا گیا اور پورے ملک میں ان کی افراد کی تعداد محض 70 ہزار ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی عہدیداروں کو حاصل ٹیکس استثنیٰ کا مقصد ریونیو حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ملکی معیشت کی خراب صورتحال میں اگر ہم صاحب ثروت لوگوں سے تعاون طلب کررہے ہیں تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم خود اپنے آپ کو اس کیلئے پیش کریں۔

گاڑیوں اور جائیداد کو خریدنے کے لیے ٹیکس فائلرز کی شرط ختم کرنے کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ اس حوالے سے مزید ٹیکس اصلاحات بھی کی جائیں گی۔غریب اور بے گھر خواتین کے حوالے سے بجٹ میں کیے اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے غریب طبقے کے مسائل کو ایک ساتھ مدِ نظر رکھا ہے اور اس سلسلے میں مزدورں کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے فنڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب ہم نے ہرجگہ غریبوں کی بہتری کو مدِ نظر رکھا ہے جس کے لیے ہم نے ایل پی جی کے سلنڈر پر 30 فیصد ٹیکس کو کم کر کے 10 فیصد کیا جس سے فی سلنڈر قیمت میں 200 روپے کی چھوٹ ملے گی۔وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا کہ ٹیکس کا بوجھ صرف امیروں پرڈالا ہے، تمام چیزوں کے نتائج سامنے میں وقت لگے گا، ہم نے صاحب ثروت لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا ہے، خسارے کوقرضہ لیکرپورا کیا جارہا ہے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے لیے جارہے تھے ۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ حکمرانی بہتر کرنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، تمام اقدامات کے نتائج آنے میں تھوڑا وقت لگے گا، امید ہے بند فیکٹریوں جلد چلنی ہونا شروع ہوجائیں گی۔

اسد عمر نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کا تخمینہ 18 سے 21 ارب ڈالرز ہے اور گزشتہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالرز تھا، اسٹیٹ بینک کے ذخائر تیزی سے گررہے ہیں، ٹیکس ریفارمز کمیشن کی تجاویز سے اصلاحات کا آغاز کریں گے، برآمدکنندگان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔