|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2018

وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز کراچی میں ایک تقریب کے دوران غیرملکی باشندوں کو شہریت دینے کی بات کی ۔اس حوالے سے وزیراعظم نے یہ دلیل پیش کی کہ ان مہاجرین کی تیسری نسل ہے جو پاکستان میں پیدا ہوئی ہے۔

افسوس کہ انہیں بہتر روزگار کے مواقع نہیں ملتے جبکہ کم اجرت پر ان سے کام لیاجاتا ہے ،ہم انسان ہیں ان کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے اس کا سدباب کرتے ہوئے ان کو شہریت دینگے۔

دوسری جانب بلوچستان میں حکومت واپوزیشن کی جانب سے مہاجرین کو شہریت دینے کی شدید مخالفت سامنے آئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے اور اہم فیصلوں پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے وزیراعظم کے اس بیان پر ہمیں شدید تحفظات ہیں، ہم افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں جس کی پالیسی پہلے سے ہی موجود ہے۔

بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ اگر افغانیوں کو شہریت دینا ہے تو پھر افغانستان کے ساتھ لگنے والی ڈیورنڈ لائن کو ختم کردیں۔ حکومت کی جانب سے یہ وضاحت بھی حیران کن ہے کہ کراچی کے مہاجرین کو قومی دستاویزات فراہم کی جائینگی یقیناًایک ملک میں دو قانون تو نہیں ہوسکتے البتہ وزیراعظم نے جس طرح اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔

بالکل اسی طرح کوئٹہ خاران ہاؤس میں وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے بی این پی مینگل کے ساتھ چھ نکاتی معاہدے پر دستخط کئے تھے جن میں افغان مہاجرین کی واپسی سرفہرست تھی اور یہ بات تو واضح ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی رضامندی کے بعد ہی اس چھ نکاتی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اوریہ حکومت کا سب سے بڑا یوٹرن ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں اپنے تقریر کے دوران امریکہ کی بھی مثال دی۔ اب جائزہ لیاجائے کہ کیاہماری ملکی معیشت امریکہ اور مغربی ممالک کامقابلہ کرسکتی ہے ۔ یورپ میں مہاجرین کیلئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جہاں انسانی خیر سگالی کی بنیاد پر مہاجرین کو شہریت دی جاتی ہے مگر اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے جس کے تمام تقاضوں کو پورا کیاجاتا ہے۔

سب سے پہلے مہاجرین کو کیمپ میں رکھا جاتا ہے پھر ان سے جواز پوچھا جاتا ہے کہ کیونکر اس شخص نے یورپ کا رخ کیا ،معیشت زدہ، جنگ زدہ علاقوں سے تعلق رکھتا ہے یا پھر اس کی جان کو خطرہ لاحق ہے جس کی بنیاد پر وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوا ہے جس کے بعد اس کے پورے کیس کا جائزہ لیاجاتا ہے باقاعدہ اس کی سماعت ہوتی ہے جس کیلئے پوری ایک ٹیم موجود رہتی ہے اور وہاں کے قانونی ماہرین تمام جواز جو مہاجرین کی جانب سے پیش کئے جاتے ہیں ان کا جائزہ لیتی ہے ۔

اس دوران انہیں مہاجرکیمپ میں رکھاجاتا ہے اوران کی نگرانی بھی کی جاتی ہے، ساتھ ہی انہیں ہرماہ معاوضہ بذریعہ کارڈ فراہم کیاجاتا ہے تاکہ انہیں مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر اس دورانیہ میں وہ کسی طور بھی پرائیوٹ ملازمت نہیں کرسکتے جب تک کہ ان کو قانونی حق نہیں دیا جاتا۔ مہاجرین کے کیسز دو سال سے لیکر دس سال تک چلتے ہیں اس پورے دورانیہ میں وہ کیمپ میں ہی رہتے ہیں وہاں جذبات کی بجائے حقائق اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شہریت دی جاتی ہے ۔

اس بات کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی معیشت کتنے مہاجرین کو برداشت کرسکتی ہے نہ کہ اپنے لوگوں کے حقوق غضب کرکے خیرسگالی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔جبکہ اب ہمارے یہاں مہاجرین کی بڑی تعداد کیمپوں سے باہر ہے جس کا علم سب کو ہے اور وہ آزادانہ طور پر یہاں ہر قسم کا کاروبا کررہے ہیں اور تمام قومی دستاویزات غیر قانونی طریقے سے بناچکے ہیں اورتو اوروہ یہاں اب سیاست بھی کررہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس خیر سگالی اور انسانی بنیاد پر وزیراعظم نے یہ بیان دیا ہے تو کیا وہ مہاجرین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں؟کیا ہمارے قانون کی مکمل پاسداری کررہے ہیں؟ہماری معیشت اس قدر مضبوط ہے کہ ان کا بوجھ برداشت کرسکے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ملک قرضوں پر چل رہاہے۔اور کیا ہمارے پاس روزگار کے ذرائع اتنے بڑھ چکے ہیں کہ مہاجرین کو ہم بہترین روزگار فراہم کرسکتے ہیں؟

ملک کے اپنے بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں جس کا ذکر جناب وزیراعظم صاحب اپنی اولین تقریر میں کرچکے ہیں کہ خوراک کی کمی کے باعث ان کے دماغ کی بڑھوتری درست طور پر نہیں ہوتی۔نیز ہمارے لاکھوں کی تعداد میں بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔ تو کیا اپنوں کا غم بانٹ لیا اور اب چلے ہیں مہاجرین کے بچوں کو بہترین تعلیم فراہم کرنے؟

کیا وزیر اعظم کو اندازہ ہے کہ ان مہاجرین کی آمد کے بعد ہمارے ہاں کتنی تباہی آئی ہے، یہاں کا صاف ستھرا اور پرامن معاشرہ بد امنی کی بھینٹ چڑھ گیا،لاقانونیت کا مظاہرہ سرعام دیکھنے میں آرہا ہے، نوجوان منشیات کے عادی ہوکر ناکارہ ہورہے ہیں اور یہ سب مہاجرین کی کلاشنکوف اور ہیروئن کا تحفہ ہے جو وہ اپنے ساتھ افغانستان سے لائے۔ ان مسائل کے تدارک کیلئے وزیراعظم کو اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے نہ کہ وہ ہمیشہ کے لیے ان مہاجرین کو ہمارے سر تھوپ دیں ۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں منشیات، اسلحہ کلچرسمیت دیگر سماجی برائیاں انہی کی مرہون منت ہیں، آج جس دہشت گردی کا ہمیں سامنا ہے اس کی وجہ بھی یہی مہاجرین ہیں ۔ ہمیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مثال دینے سے قبل ان کی طرح ایک مثالی ملک بننے کی طرف بڑھنا چاہئے جہاں قانون کی بالادستی ہے، کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔

ٹیکس کا بہترین نظام موجود ہے، ہماری طرح وہ مقروض نہیں وہاں کے سرمایہ دار اپنے قومی خزانے کو فائدہ پہنچاتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں قومی خزانے کو لوٹا جا رہاہے ۔ لہٰذا جذبات اپنی جگہ ملکی سلامتی اور اس کے قوانین کی پاسداری سب پر لاگو ہوتا ہے جب تک ہم خود مسائل سے نہیں نکل سکتے تو مہاجرین کا بوجھ ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔

ہمیں حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے کیونکہ آج ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں غربت، بیروزگاری، بھوک افلاس نے گھیر لیاہے ،ہمارے اپنے شہریوں کو صحت اور تعلیم سمیت دیگربنیادی سہولیات میسر نہیں۔

پہلے اپنے گھر کوٹھیک کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو بہترین سہولیات فراہم کریں اس کے بعد ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاجرین کو کیمپوں میں ڈال کر ان سے نہ جانے کی وجوہات پوچھ کر فیصلہ کریں کیونکہ ملک قانون کی پاسداری سے چلتے ہیں جذبات اور ذاتی خواہشات سے نہیں۔اور یہ بھی ضروری ہے کہ وزیراعظم صاحب سابقہ روایات سے ذرا ہٹ کر چلیں، وفاق اپنی مرضی کے فیصلے صوبوں پر نہ تھوپے۔

کیا یہ فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں کے عوام سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں، کیا وہ مہاجرین کا بوجھ مزید اُ ٹھانے کو تیار ہیں، یقیناًنہیں،کم سے کم بلوچستان ہر گز نہیں،اورسندھ اور کے پی کے کے عوام کے بھی جذبات یہیں ہیں۔

لہذا اہل بلوچستان کو مزید زخم نہ دیں، اور اگر یہ مہاجرین پاکستان کے لیے اتنے ہی ناگزیر ہیں تو برائے کرم انہیں بلوچستان سے نکال کراسلام آباد میں آباد کردیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر وزیر اعظم صاحب ہمارے مسائل حل نہیں کرسکتے تو ہمیں مزید مسائل میں بھی نہیں دھکیلیں گے۔