وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں جومنی بجٹ پیش کیا ہے اس میں بعض ٹیکس رعایتیں دی گئی ہیں جبکہ بعض چیزوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس میں 100 ارب روپے کی کمی کررہی ہے۔
یعنی ایک طرح سے اسد عمر نے حکومت میں آنے سے پہلے عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ٹیکس کی کمی سے پیٹرول یا ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔یہ ٹیکس کمی اس وقت کارآمد ہو گی جب عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک حد سے زیادہ اضافہ ہو جائے۔
حکومت نے درآمد شدہ قیمتی موبائل فونز، 1800 سی سی سے بڑی لگژری گاڑیوں اور کھانے پینے کی درآمد شدہ قیمتی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد ان مصنوعات کی قیمتوں میں فوری اضافہ متوقع ہے۔
البتہ کم قیمت کے موبائل فونز اور چھوٹی گاڑیوں کی قیمت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔وزیر خزانہ نے سگریٹ پر ٹیکس میں اضافے کا اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان میں سگریٹ دنیا بھر سے سستا ملتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت سگریٹ کی اسمگلنگ روکنے کا بھی بندوبست کر رہی ہے تاکہ مہنگا ہونے کی صورت میں سگریٹ کی اسمگلنگ میں اضافہ نہ ہو سکے۔
انہوں نے واضح نہیں کیا کہ سگریٹ کی قیمت میں کتنا اضافہ ہو گا۔اسد عمر نے کہا کہ حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں 350 ارب روپے کی کمی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کٹوتی ان ترقیاتی اسکیموں میں کی گئی ہے جن پر کام رکا ہوا تھا یا ان کے لیے رقم جاری نہیں کی گئی تھی ،جو ترقیاتی اسکیمیں چل رہی ہیں ان کا بجٹ کم نہیں کیا جائے گا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت بغیر نئے ٹیکس لگائے 183 ارب روپے کی اضافی آمدن حاصل کرے گی جس میں تقریباً نصف صرف ٹیکس چوری روک کر کی جائے گی۔منی بجٹ میں ترقیاتی اسکیموں میں کٹوتی تو کرلی گئی ہے مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ان میں وہ کون سی ترقیاتی اسکیمیں شامل ہیں جن پر اب تک بجٹ میں پیسہ لگایا جارہا تھااور جن کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تھا ۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وہ اسکیمیں ہیں جن پر سرمایہ کاری کے نام پر کرپشن کی جارہی تھی اگر ایسا ہے تو ان ترقیاتی اسکیموں کی مکمل تفصیلات سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ ملک میں ترقیاتی اسکیموں کے نام پر کرپشن تو پہلے سے ہی ہوتا آرہا ہے جن میں عوام کا خون چوسا جاتا رہا ہے۔
بلوچستان میں بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جہاں اربوں روپے کے ترقیاتی اسکیموں کا اعلان تو کیا گیا مگر تاحال ان منصوبوں کا کوئی وجود تک نہیں اور جو اسکیمیں جاری تھیں ان پر بڑے پیمانے پر کرپشن کے انکشافات بھی سامنے آئے ہیں۔
مرکزی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ گزشتہ حکومت کے دوران جن ترقیاتی منصوبوں کے نام پر فنڈز جاری کئے گئے تھے ان کا آڈٹ رپورٹ طلب کرے۔ اگرچہ بیرون ملک سے پیسے واپس لانے میں ایک بڑا وقت درکار ہے مگر ملک کے اندر موجود لوٹی ہوئی دولت اور ملوث عناصر کو گرفت میں لایا جاسکتا ہے جس سے قومی خزانے کو نہ صرف فائدہ پہنچے گا بلکہ ازسرنو ان اسکیموں کا احسن طریقے سے آغاز بھی کیاجاسکے گا جن کا برائے راست فائدہ عوام کو پہنچے گا۔
نئی حکومت کا منی بجٹ
وقتِ اشاعت : September 20 – 2018