|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2018

کوئٹہ :بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے سال 2018-19 کے پی ایس ڈی پی میں شامل اسکیمات پر نظر ثانی کر نے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر پی ایس ڈی پی کو بلوچستا ن ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق تشکیل دیا جائے ۔

صوبے میں دیر پا ترقی کے لئے طویل المدتی ترقیاتی پروگرام تشکیل دیا جائے ،وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال کا کہنا ہے کہ آئندہ کابینہ اجلاس میں محکمہ پی اینڈ ڈی کی جانب سے پی ایس ڈی پی پر مفصل رپورٹ پیش کی جائے گی جسے ایوان میں بھی پیش کیا جائیگا۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی 2018-19پر بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی ،بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی زیر صدارت ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا ۔

اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن نصراللہ زیرئے نے امن وامان سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے جس کی واضح مثال 14ستمبر کو ضلع پشین میں اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے اڑانا ہے ۔

جس کے نتیجے میں تین لیویز اہلکار موقع پر شہید اور دو شدید زخمی ہوئے اسی طرح 16ستمبر کو قلعہ سیف اللہ میں جنکشن چوک پر رسالدار لیویز محمد افضل اخترزئی کو موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی جانب سے فائرنگ کرکے شہید کیا گیا جس کی وجہ قلعہ سیف اللہ کے عوام میں شدید غم و غصہ کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے ۔

اس لئے اسمبلی کی کارروائی روک کر اس اہم اور فوری عوامی نوعیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایاجائے ایوان نے مذکورہ تحریک التواء کو بحث کے لئے منظور کرلیا اور اس پر 25ستمبر کے اجلاس میں بحث کی جائے گی ۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ایس ڈی پی 2018-19کو زیر بحث لانے سے قبل حکومت بلوچستان کی مرتب کی گئی ۔

تجاویز ایوان میں لانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے وہ حکومت کے سامنے ہے حکومت اور بالخصوص متعلقہ محکمے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے ضروری کام کرے ۔

حکومت ضروری کام کرکے ایک فریم ورک یا رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی حکومت بلوچستان نے اس حوالے سے جو بھی تجاویز مرتب کی ہیں وہ یہاں پیش کی جائیں تاکہ اس کے بعد ہم بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ایس ڈی پی 2018-19ء پر بحث کو آگے بڑھاسکیں ۔

قائد ایوا ن میر جام کمال نے کہا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہماری کابینہ نے پہلے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کا جائزہ لیا اور فیصلے کی روشنی میں سکیمات پر غور کیا گیا۔

ہم نے یہ بھی جائزہ لیا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے میں جن چار شعبہ جات کا ذکر کیا گیا ہے اس پر کیا کام ہوسکتا ہے پی ایس ڈی پی کا ابتدائی جائزہ لینے پر معلوم ہوا ہے کہ بہت سی سکیمات پر قانونی طریق کار مکمل نہیں کیا گیا اس حوالے سے ہائیکورٹ نے بھی ہدایات دی تھیں ۔

اب کابینہ کے اگلے اجلاس میں محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات مفصل رپورٹ پیش کرے گا انہوں نے کہا کہ ایسی بہت سی آن گوئنگ سکیمات سامنے آئی ہیں جن پر ستر سے اسی فیصد کام مکمل ہوا اور انہیں پی ایس ڈی پی سے نکال دیا گیا ان سکیمات پر اربوں روپے خرچ ہوچکے ہیں انہیں نکال دینے سے عوام کے پیسے کا ضیاع ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں جن شعبہ جات کی نشاندہی کی ہے اس کے علاوہ بھی صوبے کے معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سے ایسے شعبہ جات ہیں جن پر کام ہوسکتا ہے ۔

ہم نے اس حوالے سے ایڈووکیٹ جنرل کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ پیشی پر ان شعبہ جات کی بھی نشاندہی کریں ۔ آنے والے چند دنوں میں محکمہ پی اینڈ ڈی پی ایس ڈی پی کے حوالے سے جو مفصل رپورٹ پیش کرے گا اسے پبلک ڈاکومنٹ بنایا جائے گا ۔

اس رپورٹ کو اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جبکہ ایک کمیٹی بھی بنائی جارہی ہے جو ارکان اسمبلی سے اس حوالے سے تجاویز لے گی اگر کوئی رکن اسمبلی ہمیں پی ایس ڈی پی بہتر بنانے کے لئے معلومات دے سکتا ہے یا ان کے پاس کوئی نکتہ ہے تو وہ ہمیں بتائیں ہم اس پر کابینہ اجلاس میں بات کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے کہا کہ جن ایشوز کو یہاں زیر بحث لایا جاتا ہے ان کے دستاویزات پہلے ہمیں دیئے جانے چاہئیں تاکہ ہم ان کا جائزہ لے کر آئیں ۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے تین مہینوں کا بجٹ بنایا تھا اب قومی اسمبلی نے ایک اور بجٹ پیش کیا ہے ہمیں بلوچستان کے عوام نے منتخب کیا ہے اور مینڈیٹ دے کر یہاں بھیجا ہے تاکہ ہم ان کے مسائل کو یہاں اجاگر کرکے ان کے حل کے لئے کام کریں معزز عدالت نے جو کہا ہے اس کے مطابق پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی ہونی چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ شوران بھاگ پائپ لائن جو 37یا38کلو میٹر ہے اور اس پر 17یا شاید18کروڑ روپے لگ چکے ہیں اس پی ایس ڈی پی میں اسے مکمل ظاہر کیا گیا ہے اسی طرح اس پی ایس ڈی پی میں ایسی بھی سکیمیں ہیں جو زیر و اعشاریہ تین کلو میٹر سڑک کی تعمیر کی ہیں اس طرح تو دس پندرہ سال بعد بھی سڑکیں مکمل نہیں ہوسکیں گی اس طرح اربوں روپے ضائع ہونے کا خدشہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس صوبے میں کرپشن ہوئی ہے اربوں روپے لوٹے گئے اربوں روپے کے سکینڈل بنیں ہمیں عوام کے پیسوں کا حساب رکھنا ہوگا انہوں نے کہا کہ ہم یہاں اسمبلی فلور پر جو بات کریں وہ مصدقہ ہونی چاہئے ہم اس ایوان کو اس طرح سے چلائیں گے کہ بلوچستان کے عوام کے ایک ایک پیسے کا حساب ہو اگر وہ غلط خرچ ہوا ہو تو اس کا احتساب ہو ۔

صوبائی وزیرسردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے پورے سال کا بجٹ پیش کیا تھا جس کے بعد انتخابات ہوئے اور اب کئی علاقوں کے نمائندے تبدیل ہوگئے ہیں قائد ایوان نے کہا ہے کہ ہم پورے ایوان کو ساتھ لے کر چلیں گے جس طرح پچھلی حکومت نے اپوزیشن کی حق تلفی کی اب ایسا نہیں ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن ارکان عدالت کا فیصلہ ارکان اسمبلی کو مہیا کریں تاکہ عدالت نے جو ہدایات دی ہیں اس کے حوالے سے پی ایس ڈی پی پر بات ہوسکے ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن بتائے کہ وہ پی ایس ڈی پی میں کیا بہتری یا تبدیلی چاہتی ہے وزیراعلیٰ نے بھی پی ایس ڈی پی کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی بنائی ہے ہم ارکان سے تجاویز لے کر انہیں اسمبلی میں منظوری کے لئے لائیں گے ۔

انہوں نے عاشورہ کے دوران امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے پر سیکورٹی فورسز اور سیاسی قیادت کو مبارکبادپیش کی ۔پی ٹی آئی کے سردار یار محمد رند نے کہا کہ ہم نے جو بات کی ہے امید ہے کہ اس کا جواب قائد ایوان خود دیں گے یا متعلقہ محکمے کا وزیر جواب دے گا ۔قائد ایوان اور ان کی ٹیم جیسے ہی پی ایس ڈی پی پر معاملات طے کریں گے تو ان تجاویز کو جب ایوان میں پیش کیا جائے گا تبھی ارکان اس کی منظوری یا نامنظوری کا فیصلہ کریں گے۔

متحدہ مجلس عمل کے سید فضل آغا نے کہا کہ یہ اجلاس اپوزیشن نے ریکوزیشن پر طلب کیا تھا اپوزیشن ارکان کو بات کرنے کا موقع دیا جائے فی الحال تو حکومت آپس میں ہی بات کررہی ہے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے جب اپوزیشن ارکان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے امید ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ کسی حلقے میں کسی اور حلقے کے شخص کو دخل انداز ی کا موقع دینے سے تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں ہر حلقے کے منتخب نمائندے سے اس حلقے کے بارے میں رائے لی جائے ۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ 2018-19کی پی ایس ڈی پی کٹ پیسٹ ہے اس میں صرف ایک صفحے کے علاوہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جسے پڑھا جاسکے مجھے اجلاس میں پی اینڈ ڈی کے حکام بھی نظر نہیں آرہے آئین کے آرٹیکل 33کے تحت ہمیں عوام کے اجتماعی فلاح کی بات کرنی چاہئے بلوچستان ہائیکورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ گزشتہ حکومت کے لئے شرمناک ہے۔

انہوں نے اس موقع پر ایوان میں عدالتی فیصلے کے مندرجات اور حوالہ جات پڑھ کر بھی سنائے اور کہا کہ سابقہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے خود اقرار کیا ہے کہ پی ایس ڈی پی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ۔18اگست کے فیصلے میں عدالت نے ہدایت کی ہے کہ آئندہ سال کی پی ایس ڈی پی کی تیاری اکتوبر2018ء میں شروع کرکے مارچ2019ء تک ختم کردی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ سال2018-19ء کی پی ایس ڈی پی میں پانچ ہزار سے زائد سکیمات ہیں جن میں 123ارب روپے مواصلات کے شعبے کو دیئے گئے ہیں ایسا کرنے سے تعلیم اور صحت کی ترجیحات پانچویں نمبر پر چلی جاتی ہیں صوبے کو پانچ سے دس سال طویل مدتی ترقیاتی پروگرام کی ضرورت ہے ۔

ہم تین سال کے لئے پی ایس ڈی پی تشکیل دے سکتے ہیں بلوچستان کی زبوں حالی ختم کرنے کے لئے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم نے یہ معاملہ بھی بابوؤں اور چند وزراء پر چھوڑ دیا تو آنے والے دنوں میں ہم عوام کو جواب دینے سے قاصر ہوں گے