بلوچستان میں 1953ء میں قدرتی گیس ،سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی تھی اس لئے اس کوسوئی گیس کانام دیا گیاجس کے بعد پیرکوہ، لوٹی اور اوچ میں بھی قدرتی گیس دریافت ہوئی، یہ بگٹی قبائلی علاقے میں واقع ہیں۔
کوئٹہ کے علاوہ دوتین قریبی شہروں کو چھوڑکر بلوچستان کے تمام علاقوں کوسوئی گیس کی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کے 29اضلاع اپنے ہی گیس سے محروم ہیں اور ایسا جان بوجھ کرکیا گیا تاکہ ترقی کے عمل میں زیادہ سے زیادہ رکاوٹیں حائل رہیں۔
بلوچستان کو دانستہ طور پر قدرتی گیس، بجلی، پانی اور سڑکوں سے محروم رکھاگیا۔ 70 سال سے زائد عرصہ سے بلوچستان میں بنیادی ڈھانچہ ہی تعمیر نہیں ہوا۔ سوئی گیس پنجاب میں ملک کے سرحدی گاؤں تک پہنچائی گئی مگر بلوچستان کو 60 سال گزرنے کے بعد بھی سوئی گیس سے محروم رکھا گیا ہے ،ان میں بلوچستان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر خضدار اور تربت بھی شامل ہیں جو آبادی کے لحاظ سے کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے بڑے شہر ہیں۔
یہ دونوں شہر دو بڑے خطوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور اپنے خطوں مکران اور جھالاوان کے مرکزی اور کلیدی شہر ہیں جن کو ہر سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔نصف صدی کے بعد بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کے دو قریبی شہروں مستونگ اور پشین کو چند ایک سہولیات فراہم کی گئیں ۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ جب گیس بلوچستان سے دریافت ہوئی تو سب سے پہلے بلوچستان کے ہی علاقوں کو سوئی گیس پہنچائی جاتی کیونکہ اس گیس پر سب سے پہلا حق بلوچستان کاہے لیکن ظلم خدا کا نہ بلوچوں کو سوئی گیس دی گئی اور نہ ہی اس کی قیمت۔
اسی گیس سے پہلا کھاد کا کارخانہ سوئی سے سینکڑوں میل دور پنجاب میں لگتا ہے جس کی بنیاد پر پنجاب گندم کی پیداوار میں خود کفالت کی جانب بڑھتا ہے اور بلوچستان روز اول سے لے کر آج تک عسرت و یاس کی تصویر بنا پھرتا ہے جس کی گواہی عالمی سطح پرکئے گئے سروے رپورٹس میں اسے سب پسماندہ ظاہر کرکے دی جاتی ہے۔ اور اگر بلوچ احتجاج کرتے ہیں تو اسے غداری کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر 60 سالوں سے سوئی گیس نہ ہوتی تو تیل درآمد کرنے کے اخراجات دو گنے ہوتے۔
اسی مناسبت سے گزشتہ 60 سالوں میں تیل کی درآمد پر اخراجات تقریباََ360 ارب ڈالر بنتے ہیں، اس لئے وفاقی حکومت بلوچستان کو 360 ارب ڈالر ادا کرے صرف دس ارب روپے سالانہ نہیں جو گیس سرچارج کی مد میں صوبائی حکومت کو دیئے جاتے ہیں، یہ گیس کی معمولی رائلٹی اس کے علاوہ ہے۔ حکومت بلوچستان اور بلوچ رہنماء وفاق سے 360 ارب ڈالر گیس کی قیمت مطالبہ کریں اور موجودہ طریقہ کار جس سے بلوچستان کو صرف دس ارب روپے سالانہ دیئے جاتے ہیں اس کو ردکردیاجائے کیونکہ ساری گیس سندھ اور پنجاب میں استعمال ہورہی ہے ۔
بلوچستان کے 29 اضلاع آج بھی قدرتی گیس سے محروم ہیں لہٰذا اس کی قیمت ہی لی جائے۔ بلوچستان کے وسائل سے آج بھی فائدہ اٹھایا جارہا ہے مگر یہ خطہ جو نصف پاکستان پر مشتمل ہے اسے ہردور میں نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، ان زیادتیوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔
جب عمران خان وزیراعظم نہیں تھے تو انہوں نے بھی متعدد بار اس بات کا اظہار کیا کہ بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ وفاق کی عدم توجہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہمیشہ وفاقی رویہ سے نالاں رہے ہیں ۔ اب جبکہ عمران خان وزیراعظم عمران بن چکے ہیں تو انہیں چائیے کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرنے کے لیے بلوچستان کے بنیادی مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے انہیں حل کریں کیونکہ بلوچستان صوبے میں بھی وہ مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔
مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کی کارکردگی بلوچستان میں سب کے سامنے واضح ہے کہ کس طرح صرف ترقی اور پسماندگی کے خاتمے کے دعوے کئے گئے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا حالانکہ اس ن لیگی حکومت کے اتحادی قوم پرست تھے لیکن پھر بھی بلوچستان کے اہم مسائل کو حل نہیں کیا گیا،اس لئے بلوچستان کے عوام نے عام انتخابات میں اسی بنیاد پر ان کو مسترد کردیا۔ خدارا اب بلوچستان پر پوری توجہ مرکوز کی جائے اس کا جائز حق اسے دیاجائے تاکہ ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ ہوسکے۔
بلوچستان آج بھی گیس سے محروم
وقتِ اشاعت : September 25 – 2018