|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2018

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت گزشتہ روز نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے پہلے اجلاس کے دوران نیکٹا کے بطور ادارہ کردار اور کام سے متعلق جائزہ کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔

وزیراعظم ہاؤس میں نیکٹا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اجلاس کے دوران چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وزراء اور عسکری حکام نے شرکت کی۔اس موقع پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف 20 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد اور امن وامان کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

وزیراعظم عمران خان کا اجلاس سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پچھلی حکومت نے نیکٹا بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس بھی نہیں بلایا اور اسے نظر انداز کرنے کے سبب نیکٹا کارکردگی بہتر بنانے پر فوکس نہ کرسکا۔وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ نیکٹا انتہائی فعال انداز میں اپنا کردار ادا کرے، ملک کو طویل عرصے سے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

وزیرا عظم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے لڑتے ہوئے سیکیورٹی اداروں اور شہریوں نے اپنی جانوں کی بڑی قربانی دی ہے، مسلح افواج، پولیس، انٹیلی جنس اداروں اور شہریوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اجلاس کے دوران نیکٹا کے بطور ادارہ کردار اور کام سے متعلق جائزہ کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں تمام حکومتوں ، سول، انٹیلی جنس، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینئر حکام ہوں گے جب کہ کمیٹی ایک ہفتے میں اپنی تفصیلی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی۔

دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں گزشتہ روز ایوان میں امن وامان کے حوالے سے پیش کردہ تحریک التواء پر ارکان اسمبلی کا کہنا تھا کہ گڈ اور بیڈ دہشت گرد کی پالیسی کو ختم کرنا ہوگا،امن و امان کی مخدوش صورتحال سے پاکستان کا ایک گھر بھی محفوظ نہیں، نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے کیلئے سب کو متحد ہونا ہوگا،کوئٹہ اور مستونگ سمیت دیگر مقامات پر ہونے والے سانحات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا،کوئی ایسا دن نہیں جس میں ہمارے کسی بے گناہ شخص کو شہید نہیں کیا گیا ہو\

ان کا کہنا تھا کہ قیام امن کیلئے سب کو متحد ہوکر سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے،دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لایا جائے،ہمارے بارڈرز پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں،افغان،بنگال،برما سمیت دیگر ملکوں کے شہریوں کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود نہیں،ارکان نے کہاکہ امن و امان کیلئے 34 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں بلوچستان کی مخدوش صورتحال کے پیچھے بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔

وزیرداخلہ میرسلیم کھوسہ نے کہاکہ چند غلط پالیسیوں کے باعث بلوچستان کے حالات خراب ہوئے ،بارڈر پر باڑ لگانے سے حالات بہتر ہونگے،صوبے میں 90 فیصد علاقے لیویز کنٹرول کررہا ہے ہم سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ یہ

بات واضح ہے کہ بلوچستان عرصہ دراز سے بدامنی کا شکار ہے جس کی ایک وجہ یہاں پنپنے والی شدت پسندی ہے۔ مگر یہ بات بھی عیاں ہے کہ بلوچستان کے روایات کا اس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ وہ عناصر ہیں جو باہر سے آئے ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا جس نے یہاں کے سماجی ومعاشرتی ڈھانچے کو شدید متاثر کیا۔

موجودہ حکومت بلوچستان میں امن قائم کرنے کیلئے اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ جو مہاجرین غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں ان کی جلد باعزت وطن واپسی کو یقینی بنائے جو یہاں کی سیاسی جماعتوں اور عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کیونکہ ان کی موجودگی میں ہم دہشت گردی کو شکست نہیں دے سکتے۔

آج بھی بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے دہشت گرد داخل ہوکر یہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کے سہولت کاربھی اس وقت ہماری سرزمین پر موجود ہیں، ان کا تعلق بھی انہیں مہاجرین سے ہے۔ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کرنے کی ضرورت ہے ، یقیناًتمام مہاجرین اس میں ملوث نہیں مگر اپنی سرزمین پر امن قائم کرنے کیلئے ہمیں اہم فیصلے کرنے ہونگے۔