|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2018

کوئٹہ: پولیو کنٹرول سنٹر بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر میں کامیاب پولیو مہم چلانے کے نتیجے میں پولیو پر کافی حدتک قابو پالیا گیا ہے۔

تاہم حکام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان سے آنے والے بچوں اور بڑوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث پولیو کے کیسز ایک بار پھر بلوچستان میں پیش آسکتے ہیں۔ اس خدشے کے پیش نظر افغانستان سے آنے والے چھوٹے اور بڑی عمر کے ہر فرد کو پولیو کے قطرے پاک افغان سرحد پر پلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر حکومت کی مر ضی سے جلد عملدرآمد شروع کر دیا جائیگا ۔

وائس آف امر یکہ سے گفتگو کے دوران پولیو کے حوالے سے حکومت بلوچستان کے مشیر اور پاکستان افغانستان کے درمیان پولیو کے حوالے فوکل پرسن ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کا کہنا ہے کہ پیر کو شروع ہونے والی تین روزہ پولیو مہم کے دوران پورے صوبے میں پانچ سال کی عمر تک 25 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے دس ہزار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ ان تمام ٹیموں کے ارکان کے تحفظ کے لئے سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ۔

ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان پولیو کے حوالے سے پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے کافی مثبت تعاون ہوتا رہا ہے اور وہاں سے آنے والے دس سال کی عمر تک کے بچوں کو پولیو سے بچا کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے دوران افغانستان کے علاقوں قندہار میں آٹھ اور ہلمند میں پولیو کے نو نئے کیسز سامنے آنے کے بعد اس حوالے سے ہمیں کافی تشویش ہوگئی ہے کہ کہیں ایک بار پھر یہ وائرس بلوچستان میں آنے والے افغان مہاجرین کے ذریعے منتقل نہ ہو ۔

بقول ان کے افغانستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں افغان حکام کے بقول سیکورٹی کے خراب حالات کے باعث ان کی پولیو ٹیمیں وہاں کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے نہیں جا سکتے، اور ان علاقوں میں کم ازکم دس یا بارہ لاکھ بچے رہتے ہیں جن کا پاکستان آنا جانا رہتا ہے۔ اسی لئے پہلے ہم پانچ سے لے کر دس سال تک افغان بچوں کو پولیو سے بچا کے قطرے پلاتے تھے لیکن اب ایک پانچ سالہ افغان بچے میں پولیو کا کیس سامنے آیا ہے جس کے بعد ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قندہار اور ہلمند سے آنے والے تمام عمر کے افراد کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔

پاکستان میں رواں سال کے دوران پولیو سے متاثرہ بچوں کے کل چار کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے تین کیس بلوچستان کے ایک ہی ضلع دکی میں پیش آئے ہیں جہاں حکام کے بقول ان کیسز کے بعد پولیو سے بچا کیلئے خصوصی مہم ضلع دکی کے ساتھ پورے ژوب و لورالائی ڈویژن میں چلائی گئی ۔

ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 97 فیصد والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کیلئے تیار ہیں اور تین فیصد رہ جانے والے خانہ بدوش یا والدین کی طرف سے پولیو کے قطرے پلانے سے رہ جانے والے بچوں کو بعد میں کسی نہ کسی طریقے سے اس موذی مرض کے قطرے پلا لئے جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے ہم اپنی بھرپور کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور انسداد پولیو کی گزشتہ چند سالوں سے جاری بھرپور مہم کی بدولت پولیو کیسز میں نمایا ں کمی آئی ہے ۔

پاکستان اور افغانستان کے علاوہ نائجیریا کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پولیو وائرس پر تاحال مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ رواں سال کے دوران انسانی جسم کو عمر بھر کے لئے معذور کر دینے والی اس موذی بیماری کے افغانستان میں 14، نائیجر یا میں 8 اور پاکستان میں صرف چار کیس سامنے آئے ہیں ۔