بلوچستان وسائل کے لحاظ سے مالامال خطہ ہے مگر اس کے لوگ انتہائی غریب ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں، دیہی علاقوں میں رہنے والی پوری آبادی کو کسی قسم کی سہولیات حاصل نہیں۔
حکومت کی رٹ چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔ ریاستی ادارے دور دراز علاقوں میں ستر سال بعد بھی نہیں پہنچ سکے تاکہ لوگوں کو آسائشیں اور سہولیات فراہم کریں۔ بلوچستان میں سستی اور کاہلی کا یہ عالم ہے کہ صوبہ اپنے مجموعی اخراجات کا صرف چار فیصد مقامی ذرائع سے حاصل کرتا ہے۔
باقی مکمل انحصار وفاقی گرانٹ پر ہے، کوئی قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی کہ صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ کیاجائے تاکہ ترقی کی رفتار میں کسی حد تک تیزی لائی جائے۔ گزشتہ حکومت کے دوران یہ دیکھا گیا کہ حکومتی اخرجات میں اضافہ ہوتاگیا جس سے عوامی خدمات میں زبردست کمی دیکھی گئی ۔
یہ بات ایک حد تک درست ہے کہ بلوچستان تیزی کے ساتھ صرف ایک تنخواہیں ادا کرنے والا ادارہ بنتا جارہاہے اور اس رجحان کو روکنے کیلئے کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ گزشتہ حکومت کی بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات182 ارب روپے رکھے گئے لیکن اس رقم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ حکومت اپنے اخراجات میں کم سے کم ازکم پچاس ارب روپے کی بچت کرسکتی ہے،خاص طور پر سرکاری بھوت ملازمین کا کھوج لگا کر جن میں ڈاکٹر، اساتذہ، لیویز، پولیس اور کانسٹیبلری کے سپاہی شامل ہیں۔
اسی طرح افسروں کی شاہ خرچی بھی حد سے بڑھی ہوئی ہے، ان کے غیر ضروری اور ناجائز الاؤنسز پر اربوں روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دوران وزیروں کو ایک چھوٹی اورساتھ میں ایک بڑی گاڑی بھی دی گئی لیکن اس کے علاوہ بھی وزیروں کے پاس درجنوں قیمتی گاڑیاں تھیں۔ سابق وزراء کا دل جب گاڑیوں سے بھر گیا تو انہوں نے ہیلی کاپٹر کا مطالبہ کیا۔
ایک سابق آئی جی پولیس نے بھی اپنے لئے جہاز خرید لیا جس کو انہوں نے صر ف کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد کے سفر کیلئے استعمال کیا ،اس کا بلوچستان میں انتظام عدل میں کوئی استعمال نہیں تھا۔ منطق یہ تھی چونکہ وزیراعلیٰ کے پاس جہاز ہے لہٰذا ان کے پاس بھی اپنا ذاتی جہاز ہونا چاہئے کیونکہ وہ بلوچستان کے پولیس کے سربراہ ہیں۔
واضح رہے کہ پولیس کے زیر انتظام علاقہ بلوچستان میں دس فیصد سے کم ہے جبکہ لیویز کا علاقہ نوے فیصد سے زائد ہے۔ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بدلاجائے ،شاہ خرچیوں پر کنٹرول کرنے کے علاوہ بجٹ کے بھی خدوخال تبدیل کیے جائیں۔
انتظامی اور سیاسی لوگوں کو معاشی منصوبہ بندی سے الگ رکھا جائے۔تمام ترقیاتی فنڈ صرف ماہرین معاشیات کے حوالے ہوں تا کہ ان کو صرف معاشی ترقی پر بہترین منصوبہ بندی کے تحت خرچ کیا جائے ۔ ایم پی اے فنڈ گزشتہ تیس سالوں سے ضائع ہورہاہے اس کے معاشی اثرات بھی نظر نہیں آتے۔ اربوں روپوں کو اجتماعی منصوبوں خصوصاََ معاشی منصوبوں پر خرچ کیاجائے تو ہر سال صوبے کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا اور ان وسائل سے سینکڑوں کارخانے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔
صوبائی حکومت صنعتیں لگائے ان کو کامیابی سے چلائے اور بعد میں ان کو مقامی افراد کے ہاتھوں فروخت کرے۔ اس طرح سے دور دراز علاقوں میں صنعتیں لگانے سے صنعتی ترقی کا عمل تیز تر ہوگا۔ ماضی کے مقتدرہ نے دو بڑے کپڑے کے مل بند کردیئے جہاں پر بیس ہزار افراد کو روزگار مل رہا تھا، ان کی مشینری کو کوڑیوں کے دام من پسند افراد کو فروخت کیا گیا۔
یہ ملیں بلوچستان میں ایران نے لگائی تھیں تاکہ ہزاروں لوگوں کو روزگار ملے لیکن سابقہ حکومتوں نے ان کو بند کردیا اور اس کی مشینری فروخت کردی تاکہ لوگ روزگار سے محروم رہیں۔موجودہ حکومت بلوچستان میں معاشی اصلاحات لاتے ہوئے یہاں ترقی کے نئے دور کا آغاز کرے تاکہ ماضی میں ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ کیاجاسکے اور بلوچستان معاشی حوالے سے نہ صرف خود کفیل ہوسکے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزگار بھی حاصل کرسکیں۔
بلوچستان میں معاشی اصلاحات
وقتِ اشاعت : September 29 – 2018