|

وقتِ اشاعت :   September 30 – 2018

نیویارک میں ایشیا سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مکمل اتفاق رائے ہے کہ سی پیک ہمارے مفاد میں ہے اور سی پیک کے تحت جاری منصوبے مکمل کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے امریکا اور چین دونوں اہم ہیں اور میری کوشش ہے کہ دوستوں کو کھونا نہیں چاہیے۔ان کاکہناتھا کہ مجھے اندازہ ہے کہ واشنگٹن کا راستہ کابل سے ہو کر گزرتا ہے لیکن امریکا اپنی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔

افغانستان میں امن و استحکام ہو گا تو ہم بھی محفوظ رہ سکتے ہیں، محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی نسبت افغانستان میں مواقع ہیں، میں نے اپنا پہلا غیر ملکی دورہ افغانستان کا کیا، اس سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ افغانستان ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پڑوسی ہیں اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، امریکا کو سوچنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکا۔

افغانستان کی صورتحال ہمارے لیے باعث تشویش ہے، ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن و استحکام ہو کیونکہ وہاں امن ہو گا تو ہم بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 70ہزار جانوں کی قربانی دی، پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا ایک ملک کی وجہ سے جنوبی ایشیا ء کا امن خطرے کا شکار ہے، اگر امریکا چاہتا ہے کہ ہم مدد کریں تو ہمیں مشرقی سرحد پر محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ بھارت جب بھی مذاکرات کے لیے تیار ہو گا تو پاکستان کو تیار پائے گا۔بھارت کے ساتھ جنگ آپشن نہیں، مسائل کا حل صرف مذاکرات ہے۔

اس وقت خطہ شدید خطرات سے دوچار ہے۔ حال ہی میں بھارت کی جانب سے وزارت خارجہ کے ملاقات کو منسوخ کرنا اور اس کے بعد بھارتی آرمی چیف کے بیان نے حالات کو مزید گھمبیر بناکر رکھ دیا ہے مگر پاکستان کی جانب سے اب تک مثبت جواب ہی مل رہا ہے کیونکہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں افغانستان،عراق، شام سمیت دیگر ممالک کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے خاص کر افغانستان کاجائزہ لیاجائے تو وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بیرونی تسلط کا شکار ہے ،وہاں امن وامان کی صورتحال انتہائی ابتر ہے جس کی وجہ سے پورا خطہ متاثر ہورہا ہے ۔

خطے میں پائیدار امن کیلئے سب سے پہلے افغانستان میں مذاکرات کے راستے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب تک کی جنگ سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکا ہے ،امریکہ خود بھی اس بات کا اعتراف متعدد بار کرچکا ہے مگر پھر بھی وہ معاملات کو بات چیت کی بجائے جنگ کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے باعث حالات معمول پر نہیں آرہے۔ سرد جنگ کے زمانے سے لیکر اب تک افغانستان مسلسل جنگوں کا شکار ہے ۔اور افغانستان میں امن لانے کا حل صرف افغان قیادت کے پاس ہے، اس کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو بھی اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان پہلے ہی افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنا واضح مؤقف پیش کرچکا ہے حال ہی میں وزیر خارجہ نے افغانستان کا دورہ کیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنایا جاسکے ۔پاکستان، بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات کیلئے حل طلب تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتارہا ہے جبکہ دوسری جانب سے پُرتشدد رویہ اپنایاگیا ہے ۔

یہ بات سب پر عیاں ہے کہ اس وقت افغانستان کی سرزمین کو کس طرح پاکستان کے خلاف استعمال کیاجارہا ہے اور اس کے پیچھے کون لوگ ملوث ہیں ۔مگر اس وقت آگے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ خطہ مزید جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ امریکہ سمیت عالمی برادری خطے میں امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔