کوئٹہ کے شہری ماس ٹرانزٹ کی سہولت سے محروم ہیں یوں لوگوں کو دہائیوں پرانی بسوں اور رکشوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ یہاں ریلوے کا بہتر نظام موجود ہے جس نے عوام کی ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک خدمت کی ہے۔
کوئٹہ، چمن، کوئٹہ تفتان کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں کو ریلوے سفر کے لئے آسان بنایا گیا ہے آج بھی سپیزنڈ سے لیکر کچلاک تک ریلوے لائن موجود ہے جہاں پر پاکستان ریلوے ایک شٹل ٹرین کم ترمدت میں چلاسکتی ہے ۔ریلوے ٹریک، سگنل کا نظام، ریلوے کا اسٹاف، ریلوے ملازمین، انجن اور مسافر بوگیاں وافر مقدار میں موجود ہیں اس لئے پاکستان ریلوے کیلئے یہ مشکل نہیں کہ وہ ایک شٹل ٹرین سپیزنڈ اور کچلاک کے درمیان چلائے یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ 20 سے 30 کلومیٹر تک ہے
ایک شٹل ٹرین ایک چکر آدھ گھنٹے سے لیکر ایک گھنٹے میں پوری کرے گی اس طرح سے یہ ٹرین صبح کے اوقات میں دوبار، دوپہر میں ایک بار اور شام میں دوبار چلائی جائے تو کوئٹہ شہر کے ہزاروں افراد اس سے استفادہ کرسکیں گے ، اس طرح پاکستان ریلوے کی اس شٹل یامقامی ٹرین سے ہزاروں لوگ فائدہ اٹھائینگے۔
اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ ایک تو لاکھوں لیٹر پیٹرول اور ڈیزل کی بچت ہوگی اور لوگوں کا وقت بھی ضائع نہیں ہوگاجسے صرف ایک شٹل ٹرین سے ہی پورا کیاجاسکتا ہے۔ کوئٹہ میں سیکریٹریٹ ملازمین کو وقت پر ڈیوٹی پر پہنچانے اور واپس گھر لے جانے کیلئے درجنوں بسیں موجود ہیں بعض سرکاری ملازمین گھنٹوں پہلے اس بس میں سوار نظرآتے ہیں جبکہ سیکریٹریٹ کے کام کے اوقات ہوتے ہیں حکومت بھی ان تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکتی ہے جب ریلوے حکام کو کہاجائے کہ کوئٹہ کیلئے ایک شٹل ٹرین یا لوکل ٹرین چلائی جائے جس سے آدھے کوئٹہ شہر کو خوفناک ٹریفک جام سے بچایاجاسکتا ہے۔
جہاں تک میٹرو ٹرین منصوبہ کا تعلق ہے یہ کئی سالوں پر محیط ہوگا۔ بلوچستان میں یہ تاریخی روایات ہیں کہ وفاقی حکومت کے بلوچستان میں منصوبے دہائیوں میں مکمل ہوتے ہیں کیونکہ بلوچستان پاکستان کا انتہائی نظرانداز صوبہ ہے یہاں کے لوگوں کی وفاق میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان خود کوئٹہ شٹل ٹرین کا افتتاح چند ہفتوں میں کرسکتے ہیں کیونکہ ریلوے کے پاس پورا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے،اور پورے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی اور شٹل ٹرینیں چلائی جارہی ہیں، اگر ایک شٹل ٹرین بلوچستان کیلئے چلائی جائے تویہ ایک بہت بڑی عوامی خدمت ہوگی کیونکہ کوئٹہ کے شہری مسلسل ٹریفک جام کا شکار رہتے ہیں ۔
گزشتہ حکومت نے ماس ٹرانزٹ ٹرین کا وعدہ کیا مگر اسے پورا نہیں کیا گیا، اسی وجہ سے اہل بلوچستان کو ہروقت یہ شکوہ رہتا ہے کہ وفاق میں ان کی بات اَن سنی کردی جاتی ہے حالانکہ دیگر صوبوں میں بیشتر بنیادی سہولیات عوام کو فراہم کی جارہی ہیں مگر بلوچستان جو اس وقت پاکستان کا سب سے اہم معاشی شہ رگ بننے جارہا ہے، اب بھی عدم توجہی کا شکار ہے، آج بھی ماضی کی حکومتوں کے اعلان کردہ منصوبے یا تو مکمل نہیں ہوئے یا پھر صرف اعلانات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
نئی حکومت بلوچستان کے منتخب نمائندوں کی باتوں اور ان کے مطالبات پر غور کرے کیونکہ اس سے قبل بھی بلوچستان کے عوامی نمائندوں نے وفاق کے سامنے بلوچستان کے بیشتر مسائل رکھے جن پر کوئی غور ہی نہیں کیا گیا ۔لہٰذا اب بلوچستان کے عوامی نمائندوں کے گلے شکوے دور کیے جائیں ،یہ تب ہی ممکن ہے جب ان کو مشاورت میں شامل کیاجائے گا اور بلوچستان کے مسائل حل کرنے میں پوری طرح ان کی مددکی جائے گی تبھی یہاں کے اہم مسائل حل ہوسکتے ہیں۔