بلوچستان میں خشک سالی اور زیرزمین پانی کی سطح گرنے سے قلت آب کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتاجارہا ہے۔ بلوچستان میں نصف صدی قبل کاریز اور چشموں کا پانی دور تک بہتا دکھائی دیتا تھا اور 20 سے 25 فٹ کے فاصلے پر کنوؤں کی کھدائی پر پانی نکل آتا تھا۔
پھر جن علاقوں میں بجلی آئی تو وہاں ٹیوب ویلز لگنا شروع ہوگئے جس میں خاص کر غیر قانونی ٹیوب ویلز کافی تعداد میں شامل ہیں جس کے تدارک کیلے تاحال ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ، گزشتہ حکومتی ادوار میں بہتر منصوبہ بندی نہیں کی گئی ،نہ ڈیمز بنائے گئے اور نہ ہی غیر قانونی ڈرلنگ کو روکنے کیلئے قانون سازی کی گئی۔
صوبے کے طول وعرض میں 6 ہزار سے زائد ٹیوب ویلز زیر زمین پانی نکال رہے ہیں اور رہی سہی کسر طویل خشک سالی اور آبادی میں اضافے نے پوری کردی ہے۔ بلوچستان میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح دو ہزار فٹ تک گر جانے سے بیشتر اضلاع میں زراعت تباہ ہوکر رہ گئی ہے جبکہ کوئٹہ اور گوادر کے عوام کو پینے کاپانی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
کوئٹہ میں اس وقت زیر زمین پانی کی سطح گرنے سے زمین سالانہ 10 سینٹی میٹر دھنس رہی ہے ۔کوئٹہ کے شہریوں کو پانی فراہم کرنے والے ادارے واسا کے مطابق کوئٹہ میں پانی کی ضرورت پانچ کروڑ گیلن روزانہ ہے مگر واسا کی جانب سے شہریوں کو تین کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کی جارہی ہے جبکہ دو کروڑ گیلن پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ کوئٹہ شہر میں واسا کے 417 ٹیوب ویلز ہیں جن میں 100 کے قریب خراب ہیں۔
کوئٹہ میں پانی کی قلت دور کرنے کیلئے منگی ڈیم پر کام جاری ہے اس ڈیم سے شہر کو یومیہ 8 کروڑ گیلن پانی مل سکے گا جس سے شہر میں پانی کا مسئلہ کچھ عرصے کیلئے حل ہوجائے گا۔ بلوچستان میں آبی مسئلے کا حل موجود ہے مگر اس پر خاص توجہ نہیں دی جارہی۔ ضلع چاغی میں زیر زمین پانی کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں پانی بحران کی وجہ سے چند ایک اضلاع کو قحط کا سامنا ہے جبکہ بعض علاقوں میں مختلف وبائی امراض بھی پھوٹ پڑے ہیں۔
گزشتہ حکومت کے دوران پانی مسئلے کو حل کرنے کیلئے 100 ڈیمز بنانے کااعلان بھی کیا گیا لیکن تاحال ان کی تعمیر سے متعلق کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے کہ ان منصوبوں پر کام کس حد تک ہوا ہے۔ کچھی کینال سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کااعلان کیا گیا مگر زمینی حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں محض دعوے ہی کئے گئے عملی طور پر زمین پر کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔
حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان میں آبی مسئلے کو حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کرے۔ کوئٹہ اور گوادر جو بلوچستان کے اہم ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں، یہاں درپیش آبی مسائل سے صوبے کے دیگر اضلاع میں پانی کی قلت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
اس وقت نوشکی، خاران میں پانی کا بحران شدت اختیار کرچکا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے مال مویشی مررہے ہیں جبکہ زمین صحرا کا منظر پیش کررہاہے۔ یہاں کے عوام کی آمدنی زراعت اور مال مویشی سے وابستہ ہے خشک سالی کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے جس کے باعث وہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں،اس سے قبل بھی ان علاقوں کوقحط سالی کا سامنا کرناپڑا تھا اورصورتحال ایک بار پھر گھمبیر ہوتی جارہی ہے لہٰذا پانی کے متبادل ذرائع تلاش کرتے ہوئے ان علاقوں کو آفت سے بچایا جائے۔
دوسری جانب آبی مسائل کو حل کرنے کیلئے غیر قانونی بورنگز کے خلاف بھی سخت کارروائی ضروری ہے خاص کر کوئٹہ کے گرد ونواح میں ایسے ہزاروں ٹیوب ویلز ہیں جو تیزی سے زیر زمین پانی کونکال کر اسے تجارتی بنیادوں پر فروخت کررہے ہیں جس سے ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی ہے
اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جس کے پاس پیسہ ہے وہ پانی خرید کر استعمال کررہا ہے اور جس کے پاس پیسہ نہیں وہ پانی کے کین اٹھاکر دربہ در سرگرداں دکھائی دے رہاہے،یہ صورتحال ایک سویلائزڈ معاشرے کے لیے کسی طور قابل تحسین نہیں۔ اپنے عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی حکومت کا فرض ہے
لہٰذا حکومت اس اہم نوعیت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور بلوچستان کے عوام کو اس سنگین بحران سے نکالے وگرنہ آئندہ چند سالوں میں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بعض علاقے صحرا میں تبدیل ہوجائینگے جس سے بڑی تباہی آئے گی۔