|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2018

کوئٹہ: آل پاکستان کول مائنز اونرز ایسوسی ایشن، انجمن تاجران بلوچستان ،آل پاکستان ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن، لیبر یونین کول مائنز ایجنٹس ، آل پاکستان آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن ،چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ،پاکستان مائنز ورکر ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کی بندش کا نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان کوئلے کی صنعت کو تباہی سے بچاتے ہوئے لاکھوں خاندانوں کو بے روزگار ہونے سے بچائیں ۔

کول مائنز سالانہ اربوں روپے حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اس کے بدلے میں ہمیں وہ سہولیات دستیاب نہیں جن کے ہم حقدار ہے حکومت مقامی کوئلہ استعمال کرنے کی بجائے باہر سے مہنگے داموں کوئلہ منگوا کر استعمال کررہی ہے جس سے مذکورہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہے اگر ہمارے مطالبات حل نہ کئے گئے تو ہم تمام یونینز ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔

انہوں نے یہ بات پیر کے روز میر بہروز ریکی بلوچ ، حاجی جمعہ خان بادیزئی ، میر شاہنواز کرد ، فتح شاہ، حاجی محمد عباس، سید آغا جان، حاجی جعفر کاکڑ ، حاجی روزی خان مندوخیل، رحیم آغا، داد شاہ پڑواک ، رحیم داد خیل ، یحییٰ خان ناصر، بابو خان، جان محمد ہزارہ، سردار مرتضیٰ خان جوگیزئی، حاجی محمد ایوب، سرزمین خان افغانی، سیف اللہ پراچہ ، شہر یار خان ، چوہدری کامران اجمل سمیت دیگر نے کوئٹہ چیمبر آف کامرس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر مائنز اونرز ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں آٹھ سے 10 لاکھ گھرانے مائننگ کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ حکومت اور متعلقہ ادارے مذکورہ شعبہ کو ترقی دینے کی بجائے اس کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں بلوچستان جو کل پیداوار کا پچاس فیصد کوئلہ ملکی مارکیٹ کو دے رہا ہے موجودہ صورتحال میں اس شعبے کو بھی متاثر کیا جارہا ہے حالانکہ زراعت اور لائیو اسٹاک کا شعبہ پہلے ہی تباہی سے دو چار ہے اگر حکومت نے ان مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا گیا تو پچاس لاکھ لوگ متاثر ہوں گے اور اس خطرناک کانکنی کے شعبے سے وابستہ لوگ گوناں مشکلات سے دو چار ہیں ۔

سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے آئے روز کے حادثات سے ہر سال سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہورہی ہے ان حادثات میں بلوچستان سرفہرست ہے جہاں گزشتہ کئی ماہ 60 سے زائد قیمتی انسانیں جانیں ضائع ہوئیں اور گزشتہ 2 ہفتے قبل صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی کانکنی کے شعبے سے وابستہ کانکن موت کی آغوش میں چلے گئے ۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت پاکستان بھر میں 50 سے 60 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جارہا ہے جس سے 50 لاکھ سے زائد لوگوں کو روزگار میسر ہے۔ اس شعبے میں مزدور اور محنت کش زیادہ ہے پاکستان میں اعلیٰ کوالٹی کے کوئلے کے بے پناہ ذخائر موجود ہے لیکن قیمتی زر مبادلہ خرچ کرکے لاکھوں ٹن کوئلہ انڈونیشا اور سا?تھ افریقہ سے منگوایا جارہا ہے حالانکہ پاور سیکٹر اور دیگر انڈسٹری میں مقامی کوئلہ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے ۔

سال 2017ء4 میں تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ ٹن کوئلہ باہر سے منگواکر استعمال کیا جس پر 1 ارب 40 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے اگر انہیں رپوں میں تبدیل کیا جائے تو سالانہ تقریباً 2 کھرب روپے کا کوئلہ درآمد کیا گیا جو 60 لاکھ ڈالر روزانہ بنتے ہیں اگر حکومت 50 فیصد ملکی کوئلے کے ذخائر پر انحصار کریں تو سالانہ اربوں روپے بچائے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 5 سال میں روزانہ 5 کروڑ ڈالر کا کوئلہ دیگر ممالک سے منگوانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے حکومت ملکی وسائل پر انحصار کرکے اربوں ڈالر کے زر مبادلہ کو بچا سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں حکومت نے آلودگی کو جواز بناکر 20 اکتوبر سے 30 دسمبر تک کوئلے پر چلنے والے اینٹوں کے بھٹوں کو بند کرنے کا نوٹس دیا ہے جس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے۔ اور 9 شعبوں سے وابستہ لوگوں سے روزگار چھن جائے گا کیونکہ بلوچستان کا 20 فیصد کوئلہ پنجاب کے بھٹوں میں استعمال ہوتا ہے اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو کوئلہ کی صنعت سے وابستہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ اس سال ہم نے چیئرمین سینیٹ میر صادق سنجرانی مختلف سینیٹرز مولا بخش چانڈیو، شبلی فراز اور ایف بی آر سمیت نیپرا کے نمائندوں سے ملاقات کی اور انہیں صورتحال سے آگاہ کیا تا حال اس پر کوئی پیش رفت نہیں جس کی وجہ سے کوئلہ کی صنعت سے وابستہ لاکھوں لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔

اس موقع پر حاجی سیف اللہ پراچی، حاجی جمعہ خان بادیزئی، حاجی محمد عباس، یحییٰ خان ناصر، حاجی محمد ایوب، بہروز خان ریکی، سعید آغا جان، رحیم آغا، جعفر خان کاکڑ، سرزمین افغانی سمیت دیگر نے کہا کہ اس سنگین نوعیت کے مسئلہ پر ہم سب اکٹھے ہیں تاکہ بلوچستان کی اس صنعت کو بچا کر لوگوں کے روزگار کو محفوظ بنایا جاسکے۔

اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ورکرز بورڈ ویلفیئر کے اجلاس نہ ہونے کیو جہ سے مائننگ کے شعبے سے وابستہ لوگوں کی اسکالر شپ ، میرج اور ڈیتھ گرانٹ کے کیسز گزشتہ پانچ سال سے التواء کا شکار ہے چیف مائننگ کا شعبہ اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام نہیں دے رہا ہے حفاظت انتظامی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اگر حکومت نے ان مسائل کے حل کیلئے سنجیدگی کے ساتھ کوششیں نہ کی تو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے ساتھ ساتھ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے جس سے حالات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ حکام پر عائد ہوگی۔