بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں طویل عرصہ سے ایک ہی طبقہ حکمرانی کرتا آرہا ہے مگر اس بات کی ذمہ داری آج تک کسی نے اپنے سر نہیں لی کہ اس سرزمین کی پسماندگی کے ذمہ دار ہم ہیں، حکومتیں بدلتی گئیں مگر چہرے نہیں بدلے۔
آج بھی بلوچستان اسمبلی میں بعض اراکین ماضی کی حکومتوں کا حصہ رہ چکے ہیں.اگر ماضی کی حکومتوں کے دوران غریب صوبہ کے عوام کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں تو کسی حد تک یہ ذمہ داری ہمارے یہاں سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچستان میں ہر بننے والی حکومت میں حصہ دار بنے اور وزارتوں کے مزے لیتے رہے ۔
گزشتہ حکومت کے دوران سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے سی پیک کے متعلق بلوچستان کے منصوبوں کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک منصوبوں میں بلوچستان کی ترقی صرف کاغذوں تک محدود ہے جبکہ عملی طور پر بلوچستان سے جڑے منصوبوں پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔
اسی طرح گزشتہ روز بلوچستان کے اراکین اسمبلی نے 2018-19 ء کی پی ایس ڈی پی پر سوالات اٹھاتے ہوئے اسے مسترد کیااور اس کااز سرنو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 80 ارب روپے کے بجٹ کے باوجود بلوچستان میں غربت، تعلیم، بے روزگاری ،پانی ،صحت اوردیگر مسائل جوں کے توں ہیں۔
ہر پی ایس ڈی پی میں تمام حلقوں کے لیے فنڈز جاتے رہے مگر جب پی ایس ڈی پی پر غور کیا گیا تو اس میں انفراسٹرکچراور ترقیاتی منصوبوں کے طریقہ کارسمیت خامیاں موجود ہیںیعنی بلوچستان کے بجٹ کو کس طرح استعمال کرنا ہے اس کے سمت کا تعین ہی نہیں کیا گیا بلکہ صرف فنڈز کی تقسیم عمل میں لائی گئی ۔موجودہ صورتحال میںیہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ 800 ارب روپے بھی بجٹ میں مختص کئے جائیں اگر کوئی میکنزم موجود نہ ہو تو مسائل سے چھٹکارامشکل ہے ۔
بلوچستان آج سے نہیں بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکارہے جس کی ایک وجہ غلط طرز حکمرانی اور بیڈگورننس ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ ایم پی ایز کو جوفنڈز فراہم کئے جاتے ہیں ان سے پوچھا نہیں جاتا کہ انہوں نے یہ عوامی پیسے کہاں اور کن منصوبوں پر خرچ کئے۔
آج اگر بلوچستان کا ہر حلقہ متاثر ہے تو اس کے ذمہ دار وہاں کے منتخب نمائندے ہیں جنہوں نے فنڈز کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر اپنی ذات پر خرچ کیا ۔ بلوچستان کی پی ایس ڈی پی میں عوامی مفادات کے منصوبوں کا میکنزم تیار بھی کیاجائے تب بھی شاید بلوچستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کہ اس مائنڈ سیٹ کا خاتمہ نہیں کیا جاتا جو کرپشن کا ماہر ہے۔
بلوچستان میں عام آفیسران چند عرصوں کے دوران کروڑ پتی بن جاتے ہیں توپھر وزراء کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے وہ کرپشن کرکے پیسے بٹورتے ہیں اور منصوبوں کی مدت میں اضافہ کرتے ہیں جن کی افادیت ہی ختم ہوجاتی ہے ، ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔
بلوچستان کی موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ سب سے پہلے ان کرپٹ آفیسران جو اس وقت بلوچستان کے عوام کا خون چوس رہے ہیں ان پر ہاتھ ڈالے اور لوٹی ہوئی دولت ان سے واپس لے جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں ملکر بلوچستان کی ترقی اور بجٹ میں مختص رقم کے صحیح استعمال کویقینی بنائیں تاکہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل ہوں اور عوام کوفائدہ دے سکیں۔ جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع پیدا ہونگے بلکہ دیگر منافع بخش منصوبوں کا بھی آغاز کیاجاسکے گا۔
کرپٹ مافیا سے چھٹکارا
وقتِ اشاعت : October 3 – 2018