|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2018

واشنگٹن: وزیر خارجہ شا ہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کریں گے ٗ امریکی وزیرخارجہ کے پاکستان کے دورے کے بعد لہجے میں تبدیلی آئی ہے ٗپاک امریکہ تعلقات کو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے ٗچین کو بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں شامل کرنا چاہیے ٗتعمیری مذاکرات سے ہی مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں، ہمیں مل کرآگے بڑھنا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا ٗڈاکٹر شکیل آفریدی سے متعلق امریکہ کا مسلسل مطالبہ رہا ہے ٗ امریکہ کو بھی پاکستان کے قوانین کا احترام کرنا ہوگا ٗامریکی مڈٹرم الیکشن کے بعد پاکستانی کاکس میں 50 کانگریس ارکان شامل کریں گے ٗ پاکستان کیلئے پانی کا مسئلہ اہم ہے جو الجھتا جارہا ہے، پاکستانی کمیونٹی کے کردار کو موثر بنانے کے لیے پرعزم ہیں ٗنیشنل ایکشن پلان پر تمام جماعتیں متفق ہیں، امریکہ کو تاثر ملا کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہے۔ امریکہ کے دس روزہ دورہ مکمل کر نے کے بعد پاکستان روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو وزیر خارجہ شا ہ محمود قریشی نے کہاکہ امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات میں افغانستان کی صورتحال پر بات ہوئی ہے ٗافغانستان کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے، پاک امریکہ تعلقات کو افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، پاک امریکہ اعلامیے میں فرق غلط فہمی کا نتیجہ تھا جسے دور کردیا گیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی خودمختاری کا احترام اور بھائیوں جیسا سلوک چاہتا ہے، امریکہ کو باور کرادیا کہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے بغیر پیشرفت ممکن نہیں، پاکستان کو ساتھ لے کر چلنے سے ہی بات بن سکتی ہے،چین کو بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں شامل کرنا چاہیے ،تعمیری مذاکرات سے ہی مل کر آگے بڑھ سکتے ہیں، ہمیں مل کرآگے بڑھنا اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی کانگریس میں پاکستان کی آواز موثر بنانے کی کوشش کررہے ہیں، امریکی مڈٹرم الیکشن کے بعد پاکستانی کاکس میں 50 کانگریس ارکان شامل کریں گے۔انہوں نے کہاکہ امریکہ سے تعلقات میں پیشرفت ہوئی ہے، گزشتہ ایک سال سے پاکستان پر تنقید کی بوچھاڑ تھی، اب امریکی حکام کے منفی نہیں مثبت بیانات آرہے ہیں، ماضی میں امریکی حکام نے کئی تنقیدی بیانات جاری کیے، تاہم اب امریکہ کے لہجے میں واضح تبدیلی آئی ہے، امریکی وزیرخارجہ کے پاکستان کے دورے کے بعد مثبت تبدیلی آئی ہے۔وزیر خارجہ ے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی بحالی ضروری ہے، ڈاکٹر شکیل آفریدی سے متعلق امریکہ کا مسلسل مطالبہ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانی ڈیم فنڈ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیناچاہتے ہیں ٗامریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے، امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی بہت جاندار ہے، پاکستان کیلئے پانی کا مسئلہ اہم ہے جو الجھتا جارہا ہے، پاکستانی کمیونٹی کے کردار کو موثر بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہا کہ چاہتے ہیں کہ امریکی قوانین کا احترام کریں، امریکہ کو بھی پاکستان کے قوانین کا احترام کرنا ہوگا، امریکہ سے پرامید ہو کر پاکستان واپس جارہا ہوں، امریکہ کے کامیاب دورے پر پوری ٹیم نے بھرپور تعاون کیا، علی جہانگیر صدیقی کی مہمان نوازی اور سفارتخانے کے عملے کا شکر گزار ہوں۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر تمام جماعتیں متفق ہیں، امریکہ کو تاثر ملا کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ایک صفحے پر ہے۔ قبل ازیں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پِیس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ہمارا مشترکہ مفاد امن کا حصول ہے اور ہمیں مثبت چیزوں کی طرف دیکھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ باہمی اعتماد اور احترام پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں ٗ امن کے حصول میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا جانا چاہیے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں مشکلات کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں کیونکہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں، افغانستان آزاد ملک ہے وہ اپنے فیصلے خود لے سکتا ہے، افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد 27 لاکھ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام چاہتا ہے، پاکستان پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان دیکھنا چاہتا ہے تاہم افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اب بھی موجود ہیں، افغانستان میں منشیات کی پیداوار پر پاکستان کو تحفظات ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کیوں کہ الزامات سے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔