|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2018

پاکستان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک تناؤ پیدا ہوگیا تھا جس کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی تھی کہ آیا یہ تعلقات مزید گھمبیر صورت اختیار کرتے چلے جائینگے ,اس کے کیا نتائج نگلیں گے اور خطے پر اس کے کیا اثرات پڑینگے۔

یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ گزشتہ حکومت کے دوران پاکستان کا مؤقف جس طرح دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے تھا اس میں وہ ناکام رہے اور نہ ہی عالمی سطح پر گزشتہ حکومت کے دور میں لابنگ کی گئی جوکہ ہماری گزشتہ خارجہ پالیسی کی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے مگر نئی حکومت نے سب سے پہلے اپنی ترجیحات میں ان حالات کو رکھا جس کا سامنا پاکستان کو کرنا پڑرہا تھا۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے سمیت سازشوں کے جال بچھائے گئے اور حالات یہاں تک پہنچے کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔نئی ملکی قیادت نے سب سے پہلے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہترکرنے کیلئے دورے کئے ، اور دیرینہ تعلقات رکھنے والے ممالک کے ساتھ تجارتی سطح پر نئے معاہدے کرناشروع کئے جوکہ ایک اہم پیشرفت ثابت ہوئی۔

گزشتہ روز وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ کے ساتھ حالیہ تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سے تعلقات میں پیش رفت ہوئی ہے اور امریکہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے بغیر پیش رفت ممکن ہی نہیں۔

گزشتہ ایک سال سے پاکستان پر تنقید کی جا رہی تھی تاہم اب امریکی حکام کے مثبت پیغام آ رہے ہیں اور ہم سے پہلے پاکستان کی اعلیٰ امریکی حکام تک رسائی نہیں تھی۔ان کا کہناتھا کہ گزشتہ برس کے دوران اگر امریکی حکام کے بیانات کو دیکھیں تو اس میں سوائے انگلیاں اٹھانے اور تنقید کے کچھ نہیں تھا لیکن اس بار یہ کم دکھائی دے رہا ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہناتھاکہ تھوڑے سے عرصے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پاکستان آئے اور ان کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی جس میں سول اور ملٹری قیادت دونوں موجود تھے۔مائیک پومپیو جو تاثر لے کر آئے جس میں انہیں بالکل واضح پیغام ملا کہ ہماری سول اور ملٹری قیادت یکسوئی سے ایک صفحے پر ہے اور ملک کے مفادات کا مل کر تحفظ کرنے کا پورا ارادہ ہے اور اس سے بہت مثبت پیغام گیا۔

پاکستان ہمیشہ سے افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا رہاہے اور اس کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک چاہتا ہے۔افغانستان میں امن کے حوالے سے ان کا کہناتھا کہ امریکہ کو یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ پاکستان کے بغیر پیش رفت ممکن ہی نہیں ہے اور پاکستان سے پیش رفت حاصل کرنے کے لیے دوستانہ ماحول چاہیے۔

پریشر اور الزامات تراشیوں سے مسائل حل نہیں ہوتے اور فضا بگڑتی ہے بنتی نہیں۔ماضی کی نسبت اب پاک امریکہ تعلقات میں کافی پیشرفت دیکھنے کو ملی ہے اور اسی طرح افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے فریقین سے مذاکرات پر بھی غور کیاجارہا ہے جس کے یقیناًدوررس نتائج برآمد ہونگے۔