|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2018

امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چین سے لیے گئے قرضوں کے باعث عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس بیل آؤٹ پیکج کے لیے جانا پڑا ہے۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے گزشتہ روز پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے باضابطہ طور پر آئی ایم ایف سے قرضے کی صورت میں مدد طلب کر لی ہے۔امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کے حوالے سے کچھ عرصے پہلے بات کی تھی اور کہا تھا کہ تمام کیسز میں ہم بڑی باریکی سے تمام پہلوؤں کا مشاہدہ کرتے ہیں بشمول پاکستان کی قرضے کی صورتحال کا۔ 

ترجمان کا کہناتھاکہ میرے خیال میں پاکستان جس صورتحال میں ہے اس کی وجہ چین سے لیا ہوا قرضہ ہے اور اس قرضے کے حوالے سے حکومتوں کا خیال ہو گا کہ ان سے نکلنا اتنا مشکل نہیں ہو گا لیکن مشکل ہو گیا ہے۔

دوسری جانب عالمی مالیاتی ادارے کی ایم ڈی ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے باقاعدہ طور پر قرضے کی صورت میں مدد طلب کر لی ہے۔

کرسٹین لیگارڈ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر، گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ اور اقتصادی ٹیم کے دیگر ارکان نے ان سے بالی میں ملاقات کی۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی ایک ٹیم آئندہ ہفتوں میں اسلام آباد کا دورہ کرے گی جہاں آئی ایم ایف کے ممکنہ مالی پروگرام پر بات شروع کی جائے گی۔

پاکستان نے مالیاتی مشکلات سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا ہے ۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ دو بنیادی مشکلات ایسی ہیں جنہوں نے پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کیا ہے۔

ان کے مطابق ان میں سے ایک وجہ تو مالی خسارہ ہے جس سے حکومت کی آمدن اور اخراجات میں توازن قائم نہیں رہتا۔ ان کے بقول اس کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوتے ہیں یا ٹیکسز لگا کر اپنی آمدنی کو بڑھانا ہوتاہے یا پھر کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوتا ہے۔

اگر آپ یہ کام نہ کریں تو آگے چل کر حکومت کے قرضے بڑھ جائیں گے اور نوٹ چھاپنے پڑیں گے، جس سے مہنگائی ہوگی۔ پچھلے کچھ سالوں سے حکومت یہ کرتی آرہی ہے اور اب مالی خسارہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ قابو نہیں کیا جا رہا۔

دوسری بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب درآمدات اور برآمدات کے درمیان عدم توازن بڑھ جائے تو زرمبادلہ گرنا شروع ہو جاتا ہے، اور جب صورتحال انتہائی سنگین حد تک پہنچنا شروع ہو جائے تو پھر آپ کو فوری طور پر باہر سے زرمبادلہ کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔

اگر آپ کے پاس چار ماہ کاامپورٹ کوور ہے تو کہا جاتا ہے کہ آپ بہتر پوزیشن میں ہیں اور یہی امپورٹ کوور ایک ماہ تک آجائے تو پھر آپ بحران کی صورتحال میں آجاتے ہیں۔حال ہی میں پاکستان کے وزیر مملکت برائے ریوینیو حماد اظہرکاکہناتھاکہ پاکستان کے پاس اس وقت صرف ایک عشاریہ چھ ماہ کا امپورٹ کوور موجود ہے۔ 

موجودہ بحران کے لیے پی ٹی آئی حکومت کو الزام نہیں دیا جا سکتا،یہ مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی ہے اور اس کی وجہ تیل کی قیمتیں ہیں۔ تیل کی قیمتیں گزشتہ پانچ سالوں میں کم رہنے کے بعد اب اپنی اصل حالت پر آئی ہیں۔ 

گزشتہ حکومت اس طرح سے خوش قسمت رہی کہ ان کے ابتدائی ساڑھے تین سالوں میں تیل کی قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت کم تھیں۔ان کے مطابق گزشتہ حکومت کو تیل کی کم قیمتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ گزشتہ 30 سالوں سے ہر حکومت یہی کہتی رہی ہے کہ انہیں بینکرپٹ اکانومی ملی ہے۔ 

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسا بار بار کیوں ہو رہا ہے،موجودہ حکومت کا اس کے جواب میں یہ کہنا کہ ماضی میں کرپٹ لوگ خزانے کو لوٹ کر پیسہ باہر لے گئے ہیں مگر بنیادی وجہ یہ نہیں ہے،موجودہ مشکلات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ 80ء کی دہائی سے اب تک ہماری صنعتوں میں کچھ تبدیل نہیں ہوا،جو ملک کاٹن برآمد کر رہے تھے وہ اب سافٹ ویئر برآمد کر رہے ہیں اور پاکستان وہی کاٹن برآمدکررہا ہے۔ 

جب اسی طرح سے مواقع ضائع کرتے رہیں گے تو مالی حالات ٹھیک نہیں کر سکیں گے۔حقیقت میں الزامات لگانے کا جو سلسلہ ہے وہ توڑا نہیں جا رہا ، اب موجودہ حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ اس روایت کو تبدیل کرے گی اور وہ سب کچھ کرے گی جو ستر سالوں میں نہیں ہوا۔