|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2018

بلوچستان میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی کوئٹہ سے لے کر قلات تک گیس کی لوڈشیڈنگ بھرپور انداز میں شروع کی جاتی ہے۔ کوئٹہ اور قلات کے علاوہ مستونگ اور زیارت میں بھی گیس پریشر کم ہوجاتی ہے یا پھر اس کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ کیاجاتا ہے۔اس لوڈشیڈنگ کو اگر مردم آزاری سے تعبیر کی جائے توکچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ملک کے سرد ترین علاقے ہیں جہاں زندہ رہنے کے لئے گیس یا کسی قسم کے ایندھن کا ہونا ضروری ہے۔ 

قلات میں صرف ہر بوئی کا قیمتی جنگل ہے جو ہزاروں سالوں سے قائم ہے شاید یہ دنیا کا دوسرا بڑا جنیفر کا جنگل ہے جس کے خاتمے کے لئے سوئی گیس کے حکام عرصہ دراز سے لگے ہوئے ہیں کہ وہ گیس بند کردیں یا سپلائی کم کردیں تاکہ قلات کے عوام جینفر کا جنگل کاٹنا زیادہ تیزرفتاری سے جاری رکھیں۔

حکومت بلوچستان کو اور خصوصاً بڑی بڑی قومی سیاسی پارٹیوں کو یہ نوٹس لینا چائیے کہ سوئی گیس کمپنی گیس کی سپلائی کم کرکے یامکمل طورپر بند کرکے لوگوں کی ہمت افزائی کررہی ہے کہ وہ دنیا کے انتہائی قیمتی جنگل خاص طورپر جنیفر کے درخت کاٹیں اور یہ سردیاں بھی اس طرح گزار یں۔ 

کوئٹہ سے لے کر خضدار تک گیس کی بڑی پائپ لائن بچھائی جائے تاکہ پورے وسطی بلوچستان کو گیس کی فراہمی ممکن ہوسکے۔اس کو ایک طرف لوگوں کو سہولیات دینے اور سردی سے بچاؤ کا ذریعہ بنائیں اور ساتھ ہی گیس کو ایندھن کے طورپر استعمال کرکے پورے وسطی بلوچستان کو معاشی ترقی کا بڑا مرکز بنائیں تاکہ مقامی لوگوں کو روزگار کے تمام تر ذرائع گھر کے قریب حاصل ہوں۔ 

خضدار کے لئے ایل پی جی گیس پلانٹ سے صر ف خضدار کے چند گھرانوں کو گیس یا ایندھن کی سہولیات فراہم ہوں گی۔ باقی پورے خطے کے مایوس اور غریب لوگ اس قدرتی نعمت سے محروم رہیں گے۔ 

اس لیے ضروری ہے کہ کوئٹہ سے لے کر خضدار تک بڑی اور وسیع گیس پائپ لائن بچھائی جائے تاکہ لوگوں اور صارفین کی گھریلو ضروریات پوری ہوں بلکہ صنعتی اور تجارتی ترقی کے لئے بھی قدرتی گیس وافر مقدار میں دستیاب رہے اور یہی قدرتی ایندھن وسطی بلوچستان کی ترقی کا ضامن ہوگی۔ 

سب سے پہلا فائدہ سوراب میں رہنے والے لوگوں کو ہوگا۔وزیراعلیٰ بلوچستان نئی اور بڑی گیس پائپ کا منصوبہ بنائیں اوراس پر عملدرآمد کرائیں۔ بلوچستان کے 29اضلاع قدرتی گیس سے محروم ہیں ۔

ساٹھ سالوں بعد بھی اسکے آثار نظر نہیں آتے کہ ان کو گیس کی سہولت مستقبل قریب میں ملے گی اس کے برعکس پنجاب کے آخری سرحدی گاؤں یا قصبہ نارووال کو گیس فراہم کردی گئی ہے جو بھارت کے شہر گورداسپور سے متصل ہے مگر خضدار اور تربت بلوچستان کے دو بہت بڑے شہر ہیں اور وہ بھی مردم خیز شہر لیکن گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔

بلوچستان سے نکلنے والی گیس پر سب سے پہلے یہاں کے عوام کا حق ہے جسے سلب کیاجارہا ہے جبکہ سوئی گیس کا ہیڈآفس آج بھی کراچی میں ہے جو کہ بلوچستان کے ساتھ ایک اوربڑاس ظلم ہے ،اگر سوئی گیس کا ہیڈآفس کراچی کی بجائے بلوچستان میں ہوتا تو نہ صرف گیس کا مسئلہ حل ہوتا بلکہ وسیع پیمانے پر یہاں کے لوگوں کو روزگار بھی میسر ہوتا۔

سوئی گیس کمپنی بلوچستان سے مالی منافع کمارہی ہے مگر یہاں کے عوام کو سہولیات دینے سے گریزاں ہے خاص کر سردی کی آمد کے ساتھ ہی یہاں گیس لوڈ شیڈنگ زیادہ کی جاتی ہے جس سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ مجبوراََ لکڑیوں کے ذریعے سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ 

سوئی گیس حکام کو چائیے کہ اپنی ذمہ داری پوری کریں اور تمام بلوچستان میں گیس کی سہولت پہنچائیں تاکہ بلوچستان سے نکلنے والی بلوچستان کے عوام کو بھی ملے ، اور انہیں بھی پتہ چلے کہ ان کی سرزمین سے اللہ تعالیٰ کی ایسی بڑی نعمت نکل رہی ہے۔ 

نیز گیس پریشر میں کمی وہ بھی سخت سردیوں میں کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، اس مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے ۔ امید ہے کمپنی بہادر مہربانی کا مظاہرہ کرے گی۔