بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں کے بعد بی این پی مینگل واحد ایک بڑی قوم پرست جماعت بن کر سامنے آئی ہے جس کا ثبوت عام اور ضمنی انتخابات میں اس کی کامیابی ہے۔
بلوچستان میں اس وقت وہ دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اوروہ واحد جماعت ہے جن کے تمام صوبائی وقومی اسمبلی اراکین کا برائے راست تعلق بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سے ہے جو کسی اور جماعت سے علیحدگی اختیار کرکے بی این پی میں شامل نہیں ہوئے اور نہ ہی ان میں ایسے بڑے قبائلی قدآور شخصیات شامل ہیں جن کی پہلے سے ہی موجود اپنی نشستیں ہیں جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے نہ صرف بیانیہ بلکہ اس کے طریقہ سیاست پر آج بلوچ حلقے اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کی قیادت سردار اخترجان مینگل کررہے ہیں جنہوں نے بلوچستان کے حقوق کی آواز بلند کرتے ہوئے نہ صرف جیل کی صعوبتیں کاٹیں بلکہ ایک طویل عرصہ تک جلاوطن بھی رہے اور اس دوران یہ گمان کیاجارہا تھا کہ شاید سردار اختر جان مینگل پارلیمانی سیاست سے علیحدگی اختیار کرینگے مگرسردار اختر مینگل اپنے علاج کے بعد پھر وطن واپس آئے اور اسی طرح اپنی سیاست کو جاری رکھا۔
2008ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا جس کا فیصلہ لندن کانفرنس میں مسلم لیگ ن نے کی تھی لیکن اپنے ہی فیصلے سے خود مسلم لیگ ن منحرف ہوگئی اور عام انتخابات میں حصہ لیا۔ اس عرصہ کے دوران بے شک بی این پی مینگل کی ایوان میں شراکت داری نہیں تھی مگر جس انداز میں اس جماعت نے اپوزیشن کا کردار کیا شاید ہی کوئی جماعت کرتا۔
بلوچستان میں جہاں ایک طرف تشدد کی سیاست پروان چڑھ رہی تھی تو دوسری جانب بی این پی مینگل عدم تشدد کی سیاست کرتے ہوئے جلسہ جلوس ریلیاں منعقد کرکے بلوچوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ موبلائزیشن بھی کررہی تھی، اس دوران انہیں جہاں تنقید کا نشانہ بنایاجارہا تھا وہیں ۔
مختلف حربوں کے ذریعے ان کے راستوں میں رکاوٹیں ڈالی جارہیں تھیں مگر مستقل مزاجی کے ساتھ بی این پی نے ان مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی سیاست کو جاری وساری رکھاباوجود اس کہ انہیں تنقید کا نشانہ بنایاجارہا تھا یہاں تک کہ بی این پی مینگل کے کردار پر سوالات اٹھائے جارہے تھے مگر بی این پی مینگل کے قائدین اور کارکنان کی مستقل مزاجی ودوراندیشی نے یہ ثابت کردیا کہ ان کا بیانیہ، مؤقف اورطریقہ سیاست بلوچ سماج میں ایک تبدیلی لائے گی۔
اسی طرز سے وہ بلوچستان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے کسی حد تک بلوچوں کو پسماندگی سے نکالنے کیلئے کردار ادا کرے گی ۔ اس بات پر سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کو بلوچ حلقوں میں آج سب سے زیادہ پذیرائی حاصل ہے جو پہلے کسی زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی کو حاصل تھی۔
بلوچستان کا مدعا آج جس طرح زیر بحث آرہا ہے اس سے قبل پارلیمان میں اس طرز پر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا کیونکہ جن جماعتوں نے بلوچوں کے نام پر ووٹ حاصل کرکے ایوان تک رسائی حاصل کی انہوں نے مراعات ومفادات کی خاطر یہاں کے عوام کے حقوق کا تحفظ تو کجا بلکہ بلوچستان کا مدعا ہی غائب کردیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی سے آج بلوچستان کے عوام کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ جو کچھ ماضی میں ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے اب نہیں ہوگا۔ تعلیم،صحت، روزگارسمیت بنیادی سہولیات انہیں میسر آئیں گی اور اس کیلئے بی این پی مینگل کلیدی کردار ادا کرے گی۔ بلوچستان کے میگا منصوبوں پر ہونے والی بے ضابطگیوں اورکرپشن کے خلاف دونوں ایوانوں میں بی این پی مؤ ثر آواز اٹھائے گی ۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کا دامن سیاسی حوالے سے بالکل صاف ہے کیونکہ اس جماعت کے قائدین سے لیکر کارکنان تک نے قربانیاں دیکر آج یہ مقام حاصل کیا ہے جس کی حرمت کا ہر لحاظ سے خیال رکھا جائے گا اور بلوچستان کے عوام کو اس بار مایوسی کا سامنا نہیں کرناپڑے گا۔
امید ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل بلوچستان کے عوام کے معیار پر پورا اتر کر اپنا کردار اداکرتے ہوئے یہاں کے عوام کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔
بی این پی کی جیت،بیانیہ اور مستقل مزاجی کی سیاست
وقتِ اشاعت : October 16 – 2018