|

وقتِ اشاعت :   October 18 – 2018

بلوچستان میں غربت کی شرح 80 فیصد سے زائد ہے جبکہ گوادر، لسبیلہ، کیچ اور پنجگور میں غربت کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جس کی بناء پر ان کا شمار شدید غربت سے متاثرہ اضلاع میں ہوتا ہے ۔ 

جبکہ گزشتہ دس سالوں سے گوادر میں اربوں مالیت کے جائیداد کی خرید وفروخت، گوادر ڈیپ سی پورٹ اور دیگر تعمیراتی اور ترقیاتی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن اس سے ملحقہ اضلاع کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ گزشتہ صوبائی حکومت نے وفاق سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیاتھا کہ ضلع گوادر میں سمندری وسائل، پورٹ جائیداد کی خرید وفروخت، رسل ورسائل، تیل وگیس اور دیگر وفاقی وصوبائی نجی کاروبار پر 15 فیصد مکران ڈویلپمنٹ ٹیکس عائد کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر قانون سازی کرے تاکہ مذکورہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مذکورہ اضلاع میں غربت کے خاتمے، تعلیم، روزگار اور آمدورفت کے ذرائع بہتربنانے پر خرچ کیاجاسکے۔ 

کراچی میں پورٹ بننے کے بعد کے پی ٹی کا قیام عمل میں لایاگیا جس کے توسط سے کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے۔ سابقہ حکومت کے دور میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ گوادر سمیت پورے بلوچستان کے لئے مختلف شعبوں میں قانون سازی ہونی چاہئے وفاقی حکومت گوادر اور سی پیک سمیت دیگر حوالوں سے ہمارے تحفظات دورے کرے ۔

سی پیک کا تو شور بہت ہے اور اس کے لیے چین سے فنڈز بھی لئے گئے مگر بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں شروع کیا گیا۔ جوسڑکیں تعمیر کی گئیں وہ بھی دس سے بارہ سال پرانے منصوبے ہیں ۔

چند ایک شاہراہیں سابق آرمی چیف کی دلچسپی کی وجہ سے مکمل ہوئیں۔ پانچ ہزار ارب روپے کا اعلان کرکے صرف280ارب روپے دیئے گئے اگر9 فیصد کے حساب سے بھی فنڈز دیا جاتا تو بلوچستان کو ایک ہزار ارب روپنے ملنے چاہئیں تھیں۔

موجودہ صوبائی حکومت بھی گلہ کررہی ہے کہ سی پیک سمیت دیگر اہم منصوبوں میں بلوچستان کی ترقی کہیں نظر نہیں آتی۔ اس غیرمناسب رویہ پربلوچستان حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی وفاق کے سامنے اپنا مدعا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان میں پہلے سے ہی احساس محرومی موجود ہے ۔ موجودہ وفاقی حکومت کی بلوچستان کی ترقی میں دلچسپی یہاں کے حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ 

اس لئے ضروری ہے کہ وفاق ماضی میں روا رکھے گئے سلوک کے برعکس بلوچستان میں نئی تبدیلی لائے اور بلوچستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہاں کے عوام کا حق انہیں حقیقی بنیادوں پر دے۔بلوچستان کی ترقی اس کے اپنے ہی وسائل سے ممکن ہے بشرطیکہ اس کے وسائل کو وفاق نہ لوٹے اور نہ ہی ان کا سودا کرے۔ 

بلوچستان میں آج بھی بڑے منافع بخش منصوبے جاری ہیں لیکن ان کی آمدنی سے بلوچستان کو بہت ہی کم حصہ دیا جاتا ہے،سیندھک اس کی واضح مثال ہے، جسے موجودہ حکومت وفاقی منصوبہ کہتی ہے۔ 

سوئی گیس بھی وفاقی منصوبہ ہے، کل کو ریکوڈک بھی وفاقی منصوبہ بن جائے گا، گوادر پورٹ تو ویسے ہی وفاقی منصوبہ ہے تو پھر بلوچستان کا کیا ہے، اس کے عوام کے لیے وفاق کیا چھوڑے گا۔

کیا یہاں کے عوام کی مقدر میں ہمیشہ غربت اور پسماندگی رہے گی،کیا اٹھارویں ترمیم صوبے کو اپنا حق دلا سکے گی یا یہ ترمیم صرف باقی صوبوں کے لیے ہے کہ انہیں اپنے وسائل پر بھر پور اختیار ہے ، بلوچستان کسی بھی اٹھارویں ترمیم کی خوش فہمی میں نہ رہے۔ بلوچستان کو اپنے وسائل پر پورا اختیار دیا جائے تو اسے وفاق سے کچھ بھی مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور خوشحالی یہاں کے عوام کا مقدر بنے گی۔