انقرہ: ترک صدر طیب اردگان سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات سے متعلق اپنی جماعت کے رفقاء کو کل اعتماد میں لیں گے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ترکی کے تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔
تفتیش کاروں نے اپنی تحقیقات سے متعلق مفصل رپورٹ ترکی صدر کو بھیج دی تھی۔ رپورٹ موصول ہونے پر صدر طیب اردگان کل اپنی کابینہ اور جماعت کے اراکین کو تحقیقات سے آگاہ کریں گے۔
ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اب تک کی تحقیقات سے اپنی جماعت کے رفقاء کو اعتماد لیں گے بعد ازاں میڈیا کے ذریعے یہ معلومات پوری دنیا کو فراہم کیے جانے کا امکان ہے۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لیے کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا اور ملکی قوانین کے تحت شفاف تحقیقات کو مکمل کرلیا ہے جس میں ہوشربا حقائق سامنے آئے ہیں۔
صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ سعودی حکام کا اولین دعویٰ تھا کہ صحافی کچھ دیر بعد واپس چلے گئے تھے لیکن ترکی کے حکام نے سعودی موقف کو رد کردیا تھا۔
ترک حکام کا دعویٰ تھا کہ صحافی کو قونصل خانے میں ہی قتل کرکے لاش قریبی جنگل یا کھیت میں چھپادی گئی ہے۔ لاش کی برآمدگی کے لیے تلاش کا کام بھی شروع کیا گیا تھا تاہم میڈیا کو اپ ڈیٹس نہیں دی گئی تھیں۔
ترکی کے تفتیش کاروں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ 2 اکتوبر کو ہی 10 سے زائد سعودی حکام چارٹرڈ طیارے سے استنبول پہنچے تھے اور ان تمام افراد کے سعودی قونصل میں داخلے اور کام مکمل کرنے کے بعد واپس جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں۔
ترک تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ یہی افراد جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں ان میں سے ایک شخص فرانزک لیب کا ماہر ہے جب کہ باقی افراد یا تو انٹیلی جنس کے اہلکار ہیں یا پھر سعودی ولی عہد کے محافظ تھے۔
ترکی کے تفتیش کاروں نے صحافی کی گمشدگی کے بعد سعودی قونصل خانے کے پہلی بار معائنے کے بعد قتل کے حوالے سے آڈیو اور ویڈیو شواہد بھی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور انہی شواہد کی بناء پر تفتیش کو آگے بڑھایا گیا تھا۔
واضح رہے سعودی عرب کا بھی عالمی دباؤ کے بعد جمال خاشقجی کی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صحافی ہاتھا پائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ تاہم لاش کے حوالے سے سعودی حکام نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔