|

وقتِ اشاعت :   October 23 – 2018

بلوچستان کے لوگوں کی معیشت کادارومدار اسمگلنگ پر ہے، صنعتی اشیاء اسمگل ہوکر بلوچستان آتی ہیں جس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی اسمگلرز اور دکاندار ریاست کو کسی قسم کا ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس لئے ریاست کی آمدنی بلوچستان میں منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی محاصل میں اضافہ نہیں ہوا سوائے معدنیات کے شعبہ کے۔لے دے کے سیندھک سے کچھ ٹیکس بلوچستان کو ملتا رہا ہے، دیگر کوئی اہم شعبہ نہیں ہے جہاں سے حکومت کو قابل ذکر آمدنی حاصل ہو، روایاتی طور پر بلوچستان میں ماہی گیری، زراعت، گلہ بانی ، معدنیات بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔

یہی صوبائی معیشت کے چار اہم شعبے ہیں مگر بدقسمتی سے گزشتہ حکومتوں کے دوران بجٹ میں ان شعبوں کونظرانداز کیاجاتا رہاہے اور توجہ ان اسکیموں پر دی جاتی رہی جہاں سے افسران اور سیاسی رہنماؤں کو برائے راست فائدہ مل سکے اور زیادہ سے زیادہ کمیشن حاصل کیا جاسکے ، ایک مثال گوادر کے قریب کھارے پانی کو میٹھابنانے کے پلانٹ ہیں جو بی ڈی اے اور محکمہ صنعت کی طرف لگائے گئے۔

اس میں اربوں روپے کا کمیشن وصول کیا گیااس کیلئے گوادر کے قریب کھارے پانی کو میٹھابنانے کے پلانٹ لگائے گئے،افسوس ماضی میں نیب نے ان معاملات میں کوئی کاروائی نہیں کی کیونکہ اس میں سرکاری اہلکاروں کے چہیتے ملوث رہے ہیں، انہی رقوم کے چوتھائی حصہ سے ان دریاؤں پر ڈیم بنائے جاسکتے تھے جو نہ صرف گوادر بلکہ اس کے گرد ونواح کوصاف پانی کی فراہمی کو یقینی بناتے۔

بلوچستان میں بجٹ بناتے وقت ان چار اہم شعبوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ یہاں سے 90 فیصد لوگوں کو روزگار ملتا ہے، گلہ بانی کو ترقی دے کر ہم دودھ مکھن کی پیداوار میں نہ صرف اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ اس کو برآمد بھی کرسکتے ہیں اس سے دیگر ممالک میں قربانی کے جانوروں کی خوراک کی ضروریات کو پوری کرسکتے ہیں۔ 

ماہی گیری کا شعبہ ملک بھر میں پروٹین کی ضروریات پوری کرنے کے بعد چھ ارب ڈالر کی مچھلی دنیا بھر میں برآمد کرسکتا ہے پسنی کے مقام کلمت میں نایاب مچھلی موجود ہیں جن کی قیمت عالمی مارکیٹ میں اربوں روپے ہے جس سے ہم بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر اس جانب ہم توجہ ہی نہیں دیتے اور المیہ یہ ہے کہ غیر قانونی ٹرالنگ سے نایاب مچھلیوں کی نسلی کشی کا ایک طویل سلسلہ جاری وساری ہے جس سے ہمارے ماہی گیروں کو شدید نقصان کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔

اب بھی ہم اس شعبہ پر خاص توجہ دیں تو اچھی خاصی آمدنی کماسکتے ہیں ۔ زراعت کے شعبے میں ہمارے پاس دو کروڑ زمین اضافی پڑی ہے اس کو قابل کاشت بناکر بلوچستان غذائی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل بلکہ پورے خطے کی غذائی اجناس کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ 

معدنیات توکئی کھرب ڈالر کا پروجیکٹ ہے جس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا، ٹھگ آفیسران کو ماضی میں کئی دہائیوں تک معدنیات کے شعبہ کے سیاہ وسفید کا مالک بناکر رکھ دیا گیاجنہوں نے بے تحاشہ کرپشن کرکے اس شعبہ کو شدید مالی نقصان پہنچایا حالت یہ رہی کہ بلوچستان آج مالی بحران کا سامنا کررہا ہے ۔

اگر اس دوران حکومت ہمارے وسائل کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات اٹھاتی تو آج بلوچستان میں صورتحال کچھ اور ہوتی۔ مگراب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم ان چارشعبوں پر زیادہ توجہ دیتے ہوئے ان کے فروغ کیلئے بہترین منصوبہ بندی کریں تاکہ بلوچستان اپنی معیشت سے بھرپور فائدہ اٹھاسکے ۔