گزشتہ پندرہ سالوں سے سیندک پروجیکٹ کی صورت میں بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔ بلوچستان کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ بلوچستا ن کو صرف ڈھائی فیصد کی رائلٹی پرٹرخا دیا گیا۔
غیرملکی کمپنی نے اربوں ڈالر کمانے کے بعد بھی اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اتنے بڑے سونے اور تانبے کے پلانٹ کے بعد بھی چاغی اور خصوصی طورپر سیندک کے گردونواح میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے ۔غیرملکی کمپنی نے وسائل کو بھر پور طریقے سے لوٹا یہاں تک کہ سینکڑوں کارکن باہر سے لائے گئے اور مقامی افراد کو روزگار کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔
سینکڑوں کارکنوں کوباہر سے سیندک لانا ایک معاشی جرم ہے جس میں اس دور کی حکومت بھی برابر کی شریک ہے کیونکہ اس نے کمپنی کواپنی من مانی کرنے کی اجازت دی تھی کہ وہ جو چاہے کرے ۔ جو چند ایک پاکستانی کارکن سیندک میں کام کررہے ہیں ان کو اس وقت کے ڈی سی نے بھرتی کیا تھا اس کے علاوہ پاکستان بھر سے اہل کارکنوں کو ملازمتیں دیں تھیں لیکن کمپنی نے ان کی اکثریت کو ملازمت سے بر طرف کردیا اور ان کی جگہ پر اپنے کارکن لائے ۔
اس قسم کے عوام دشمن فیصلے اور معاہدے کرنے کا اسلام آباد عادی ہے خاص کر جب بات بلوچستان کے وسائل کی ہو ، ایک طرح سے وفاق بلوچستان کے لوگوں کا مستقبل بیچ کھا رہا ہے اور اپنے اس رویے پر اسے کوئی افسوس بھی نہیں ۔
سوئی گیس سے بلوچستان کو کیا ملا، سیندک نے بلوچستان کو کیا دیا، گوادر پورٹ بلوچستان کو کیا دے گا اور ریکوڈک کو بھی کیا اسی طرح بیچ کھایا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جوبلوچ عوام کے ذہنوں کو بے چین کیے رکھتا ہے ۔ ان تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے سیاستدانوں کو کسی بھی معاملے میں مصلحت کوشی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ کی خاموشی اور ذاتی مفادات سے بلوچستان کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔
بلوچستان کے وسائل کا سودا وفاق اپنے مفادات کے تحت کرتا ہے اسے بلوچستان کے عوام کی پسماندگی اور درماندگی سے کوئی غرض نہیں،لہذا بلوچستان کی صوبائی حکومت سیندک پروجیکٹ خودچلائے کیونکہ اس کیلئے پاکستان میں کارکن موجود ہیں۔
جب سیندک پلانٹ مکمل ہوا تھا تو دو ماہ کی ٹرائل پیداوار پاکستانی کارکنوں نے حاصل کی تھی،جسے بین الاقوامی منڈی میں پچاس کروڑ روپے میں فروخت بھی کیا گیا۔ بعدازاں نواز شریف اور چوہدری نثار نے اپنے دور حکومت میں سیندک کا دورہ کیا۔
چینیوں کو بلوچستان سے بے دخل کرنے کے آرڈر نکالے ،اس طرح سونے اور تانبے کے کان کو وزیراعظم پاکستان کے حکم سے بند کردیا گیا جو بلوچستان کے عوام کے معاشی قتل کے مترادف تھا۔ وفاق کی یہ وہ ناروا پالیسی ہے کہ بلوچستان کو پسماندہ ‘ غریب اور بھوکا رکھا جائے، اس کے ہر ایک ترقیاتی عمل میں رخنہ ڈالا جائے۔ گوادر اور کچھی کینال اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اچھے اور ایماندار افسران پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو معاشی منصوبوں کی نگرانی کرے ایسی ہی ٹیم سیندک چلائے اوراس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سیندک سے حاصل ہونے والی آمدنی ، بشمول کارپوریٹ ٹیکس کے حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں۔
اگر یہ اسکیم کامیاب ہوجائے تو ریکوڈک اور سیندک پروجیکٹ کو ضم کیاجائے اور حکومت بلوچستان سیندک پلانٹ کو توسیع دے تاکہ اربوں ڈالر کی آمدنی صرف اور صرف بلوچستان کی حکومت اور عوام کے لئے ہو۔وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ بلوچستان کے عوام کے وسائل پر ان کے حق کو تسلیم کیاجائے ، اب تک بلوچستان کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا ہے اسے تبدیل کیا جائے ۔
موجودہ صوبائی حکومت ماضی کے ادوار کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں اپنے صوبے کے حقوق کے لیے بلادھڑک سخت موقف اپنائے، سیندک پروجیکٹ خود چلائے اور سارا منافع خود رکھے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم سے کم بلوچستان کو آدھا حصہ تو دلوائیں، نہیں تو سیندک ذخائرکا خاتمہ زیادہ دور نہیں اور ہم یونہی صرف ڈھائی فیصد رائلٹی پراسلام آباد کا احسان مند رہیں گے ۔
اوراگر اس سلسلے کو تبدیل نہیں کرسکتے تو ہمیں اس بات پر رونا نہیں چاہئے کہ ہم مالی بحران کا شکار ہیں ۔گزشتہ پالیسیوں کی وجہ سے ہی آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں، ترقیاتی منصوبوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں ملا بجائے اس طرح کے گلے شکوے کے ہمیں اپنے قانونی اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے منافع بخش منصوبوں کو اپنے ہاتھ میں لینا چائیے اورجو حق وفاق کا بنتا ہے اسے دیا جائے مگر بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کو ہر صورت روکاجائے۔
یہاں کے عوام کا جائز مقام ان کو دیاجائے جس طرح ملک کے دیگر صوبوں میں چلنے والے بڑے بڑے منصوبوں سے وہ فائدہ اٹھارہے ہیں تو ہم کیوں نہیں اٹھاسکتے۔ لہٰذا بلوچستان کو مالی مشکلات سے نکالنے اور یہاں ترقی کی رفتار کو بڑھانے کیلئے ہمیں ٹھوس مؤقف اپنانا چائیے ،یہی بلوچستان کے وسیع ترمفادمیں ہے۔