|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2018

ڈی سی چاغی محمد قسیم کاکڑ کے مطابق بلوچستان کا ضلع چاغی شدید خشک سالی کی لپیٹ میں آگیا ہے، قحط سے 7 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں، ڈی سی چاغی کا کہنا ہے کہ پانی کی قلت کے باعث زراعت متا ثر ہوکر رہ گئی ہے جبکہ مال مویشی بھی مرنے لگے ہیں، ڈی سی چاغی نے صوبائی حکومت کو امداد کے متعلق مراسلہ بھی بھیج دیا ہے۔ 

دوسری جانب ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے عطاء اللہ مینگل کا کہنا ہے کہ ضلع چاغی میں قحط سے متاثرہ 3 ہزار خاندانوں کیلئے ہنگامی بنیادوں پر بلو چستان حکومت نے راشن خوراک ،کمبل ،خشک دودھ سمیت دیگر اشیا ء تقسیم کی ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ خشک سالی سے نوشکی ،کچھی ،تربت ،چاغی میں مال مویشی بڑی تعداد میں مر رہے ہیں جبکہ صو بائی و زیر داخلہ میر سلیم کھو سہ نے اس حوالے سے و زیر اعلیٰ بلوچستان سے بات بھی کی ہے ۔

ڈائر یکٹر پی ڈی ایم اے نے کہا ہے کہ جلد تمام متا ثرہ علا قوں کے ڈپٹی کمشنرز کو طلب کیا جا ئے گا تاکہ ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران کے ذریعے متا ثرہ علا قوں میں عوام کو ریلیف پہنچایا جاسکے، واضح رہے کہ ضلع چاغی میں شدید قحط سالی ہے اس سے قبل 2002 میں اس طرح کی قحط پڑی تھی جس کے باعث ہزاروں خاندان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے جبکہ بڑی تعداد میں لوگوں کے مال مویشی بھی مرگئے تھے۔ 

ضلع چاغی میں اس وقت خشک سالی کی وجہ سے عوام شدید پریشانی سے دوچار ہیں اگر فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی پر مجبور ہونگے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق 7 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر مال مویشی مرچکے ہیں، غذائی قلت کا سامنا بھی ہے یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ چاغی کی سنگین صورتحال کے پیش نظروہاں ایمرجنسی نافذ کرے ۔ 

بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں پر آئے دن قدرتی آفات آتے رہتے ہیں جس کی ایک وجہ پانی کی شدید قلت ہے۔ دونہروں سے بلوچستان کو اس کے حق کے مطابق پانی نہیں مل رہا ، کچھی کینال گزشتہ کئی برسوں سے زیر تعمیر ہے جس سے سات لاکھ ایکڑ زمین آباد ہونی ہے بلوچستان غذائی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہے اس لئے بعض علاقوں میں ٹیوب ویل اور زیر زمین پانی کا استعمال بے دریغ ہورہا ہے۔

زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے بعض علاقوں میں یہ سطح اتنی گرگئی ہے کہ مشین وہاں سے پانی نہیں نکال سکتا ۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اس سے نمٹنے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں ہے، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو یقیناًبلوچستان کے دیگر اضلاع بھی شدید خشک سالی کا شکار بن جائینگے کیونکہ لاعلم اورکوتاہ چشم کاشت کار بے دردی سے زمین سے پانی نکال رہے ہیں اور وہ اپنے منافع کو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتے ہیں۔ 

حکومت کو چاہئے قانون لاگو کرتے ہوئے زیر زمین پانی کے بے دریغ استعمال کو روکے اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے تاکہ زیرزمین پانی کا تجارتی بنیادوں پر استعمال نہ کیاجاسکے ۔

ماضی میں جس طرح ٹیوب ویلوں پر سبسڈی دی گئی تھی اس کا مقصد اس کے علاہ کچھ بھی نہیں ہے کہ اس پورے خطے کو ریگستان میں تبدیل کیا جائے جس کی تمام تر ذمہ دارماضی کی حکومتیں ہیں۔ 

ان حالات سے بچنے کا واحد حل پانی کا مناسب استعمال ہے، زمین کی آبیاری کیلئے قطرانی نظام آبپاشی نافذ کیاجائے او رساتھ ہی تمام ندیوں اور نالوں پر بند باندھے جائیں تاکہ لوگ ڈیم سے پانی حاصل کریں ،زیر زمین پانی کا استعمال بند کردیں، ڈیم کی تعمیر سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے بلند ہوسکتی ہے اور اس طرح صوبہ اس طرح کے آفات سے بچ سکتی ہے۔ اب یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر عملی طور پر اپنا کردار ادا کرے۔