|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2018

بلوچستان کے ہر حکومت کی یہ خواہش رہی ہے کہ بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔ بلوچستان کے ہر دورکے حکمرانوں نے سرمایہ کاروں کو نہ صرف براہ راست مخاطب کیا بلکہ مشترکہ دوستوں کے ذریعے بھی ان کو یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان میں ان کا سرمایہ اور منافع دونوں محفوظ ر ہیں گے۔ حکومت ہر قیمت پر ان سرمایہ کاروں کی حفاظت کرے گی۔ 

البتہ یہ وفاقی حکومتوں کی معاندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے بلوچستان میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی70سالوں بعد بھی اس طرح آگے نہیں بڑی جس طرح ملک کے دیگر صوبوں میں دیکھنے کو ملتا ہے خاص کر سندھ اور پنجاب ایک واضح مثال ہیں۔

وفاقی حکومتوں کی رویوں کی وجہ سے بلوچستان آج تک پسماندہ ہے یہاں پر لوگوں کے لئے روزگار کے ذرائع موجود نہیں ،حکومتوں نے بھی اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی کہ ہم ایک بہتر ساز گار ماحول بناکر عوام کی مقبول حمایت حاصل کرکے سرمایہ کاری کو فروغ دیں۔

سب سے پہلے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ماضی کے مثالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے ،عوامی اعتماد کو بحال کرے تاکہ سرمایہ کاری میں اعتماد کی فضاء بحال ہو۔ماضی میں صورتحال انتہائی خراب تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی سرمایہ کار بلوچستان میں پیسہ لگانے سے ہچکچاتا تھا، کیونکہ اس دور میں لوگوں کی جان اور مال محفوظ نہیں تھے ، لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے ۔

لیکن آج حالات قدرے بہتر ہیں جس سے امکانات روشن ہوگئے ہیں کہ صوبے میں سرمایہ کاری اور روزگار کے زیادہ مواقع پیداہوسکتے ہیں۔ بلوچستان دشمنی کی ایک اور مثال مشرف دور حکومت میں دیکھنے کو ملاجب حب کے علاقے میں قائم کارخانوں سے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے اچانک ٹیکس میں رعایت واپس لے لیا۔

یوں اس عمل سے سینکڑوں کی تعداد میں کارخانے بند ہوگئے اور ان سرمایہ کاروں کو بہتر سہولیات اور ٹیکس رعایتیں پنجاب کے لیے دی گئیں تو ان سرمایہ کاروں نے پنجاب کار خ کیا۔ یہ حکومت اور حکمرانوں کی طوطاچشمی تھی کہ سینکڑوں کی تعداد میں بلوچستان جیسے پسماندہ ترین علاقے میں کارخانے بند کردئیے گئے اور سرمایہ کاروں کو پنجاب میں زیادہ فائدہ دیا گیا۔ 

بلوچستان کے پڑوس میں چاہ بہار کی بندر گاہ ہے جہاں پر پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے اس کی وجہ سے روزگار کے بہتر مواقع پیدا ہورہے ہیں اور ایرانی بلوچستان دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ بھارت چاہ بہار میں بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ حکومت اور اس کی معاشی اور سماجی پالیسی کو عوام کی مقبول حمایت حاصل ہے۔ 

چاہ بہار میں اسٹیل کے دو بڑے کارخانے قائم ہورہے ہیں۔ ایک جاپان تعمیر کررہا ہے جس کی پیداوار بیس لاکھ ٹن سالانہ ہوگی اور دوسرا جنوبی کوریا جس کی پیداوار سالانہ سولہ لاکھ ٹن ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ہمارا ایک لاکھ ٹن پیدا کرنے والا کارخانہ مسائل کا شکار ہے۔ دوسری جانب تعلیم یافتہ طبقہ جو تعلیمی اداروں سے فارغ ہورہاہے اس کی تعداد سالانہ پچیس ہزار سے تیس ہزار کے درمیان ہے۔ 

ان کے لئے ملازمت اور روزگار کے کوئی مواقع نہیں ہیں۔ صوبائی حکومت واحد ذریعہ ہے جو صرف چند ہزار افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے۔ اگرموجودہ حالات کا جائزہ لیاجائے تو اب چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی بلوچستان کا رخ کررہے ہیں تاکہ وہ سرمایہ کاری کرسکیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان وسائل سے مالامال خطہ ہے ۔

یہاں مختلف شعبوں میں زبردست سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے جس سے بلوچستان حکومت کو بھرپور مالی منافع حاصل ہوگا اور جن بحرانات کا صوبائی حکومت سامنا کررہی ہے ان سے وہ باآسانی نکل سکتا ہے ۔

بشرطیکہ بلوچستان میں سرمایہ کاری یہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔لہٰذا ضروری ہے کہ عوامی مفادات کے تحت ان منصوبوں کو چلایاجائے نہ کہ ماضی کے منصوبوں کی طرح کہ جس سے صرف چند مخصوص طبقات نے فائدہ اٹھایا۔ 

موجودہ حکومت کی سرمایہ کاری کے حوالے سے کاوشیں قابل تحسین ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ہمیں بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے آگے بڑھنا چاہئے تاکہ ہم اپنے معاشی اہداف حاصل کرسکیں اور اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لاسکیں۔