1997ء کے بعد دوسری بار بلوچستان کے اکثر علاقے خشک سالی کا شکار ہیں، 1997 ء سے لیکر 2005 تک پورے بلوچستان میں خشک سالی رہی اور 2005ء کے آخری مہینوں میں خشک سالی کا خاتمہ ہوا۔
8 طویل سالوں تک خشک سالی نے پورے بلوچستان میں تباہی پھیلائی۔ ایک اندازے کے مطابق اس دوران 18 لاکھ یعنی 25 فیصد مال مویشی ہلاک ہوگئے تھے اور تقریباََ بلوچستان کی دیہی معیشت کو 30 ارب روپے کا نقصان پہنچاتھا۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر خشک سالی نے بلوچستان میں گزشتہ تین سالوں سے تباہی پھیلائی ہوئی ہے اکثر اضلاع خشک سالی کا شکار ہیں خاص کر چاغی، کچھی اور تربت ان میں شامل ہیں۔
مال مویشی، بھیڑبکریاں بڑی تعداد میں ہلاک ہورہی ہیں خوراک میں کمی کے باعث اکثر لوگ بیمار پڑگئے ہیں ، ہزاروں خاندان متاثر ہوکر رہ گئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت کے حکمران اپنی حکمرانی کے آخری دنوں میں پی ایس ڈی پی اور ذاتی مالی فوائد کے پیچھے لگے ہوئے تھے، کسی نے صوبے میں خشک سالی کی بڑی تباہی پر توجہ نہیں دی ۔
اب بھی صورتحال انتہائی نازک ہے بعض علاقوں میں بہت ہی کم بارشوں کی اطلاعات ہیں اور مختلف علاقوں میں خشک سالی کے اثرات واضح دکھائی دے رہے ہیں،لوگ مکمل غذا نہ ملنے پر بیمار پڑگئے ہیں بلکہ کثیر تعداد میں اموات کی بھی اطلاعات ہیں۔
حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت صوبہ بھر میں ہنگامی حالات کااعلان کرے اور جنگی بنیادوں پر دور دراز علاقوں کے لوگوں کو فوری امداد فراہم کرے بلکہ وفاقی حکومت پوری دنیا سے امدادکی اپیل کرے تاکہ خشک سالی کا مقابلہ کیاجاسکے اور 1997ء سے 2005ء والی صورتحال کا سامنا نہ کرناپڑے۔
وفاقی حکومت جتنی جلد بین الاقوامی امداد کی اپیل کرے گی اتنی ہی جلد عوام کو ریلیف ملے گا کیونکہ ان کو بروقت امداد کی ضرورت ہے تاخیر کسی بڑے انسانی المیے کا سبب بن سکتا ہے، انسانی زندگیوں کو بچانا حکومت کا اولین فرض ہے اس لئے ضروری ہے کہ صوبائی حکومت تمام وسائل بروئے کار لائے، اگر بڑی تعداد میں مال مویشیوں کی ہلاکتیں ہوئیں تو غریب لوگوں کا دور دراز علاقوں میں رہنا مشکل ہوجائے گا۔
گزشتہ 8 سالوں کی خشک سالی میں صوبے کی دیہی معیشت تباہ ہوگئی تھی تقریباََ 30 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا جبکہ حکمران عیش وعشرت میں مصروف تھے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت نے صرف چند کروڑ روپے دیئے اس طرح مفلوک الحال لوگوں کو اپنے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیا۔
ماضی میں وفاقی حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ بلوچستان پر جب بھی کوئی بڑی آفات نازل ہوئی اس کا رویہ ہمیشہ سرد مہری اور بیگانوں جیسا رہا اور ہر ایسے موقع پر وفاقی حکومت نے چند کروڑ روپے دے کر اپنی جان چھڑائی۔
مکران کی بارشوں میں ایک سابقہ وفاقی حکومت نے صرف دس کروڑ روپے دیئے تھے جبکہ ان بارشوں سے تباہ کاریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دریائے دشت میں 7 لاکھ کیوسک، دریائے نہنگ میں ساڑھے تین لاکھ اور دریائے کیچ میں سیلاب بہہ رہا تھا، طوفانی بارشوں سے ہزاروں گھر اور بڑی بڑی آبادیاں تباہ ہوگئیں تھیں۔ وفاقی حکومت کے وزیر آئے اور دس کروڑ روپے دے کر چلتے بنے ۔
اسی طرح نصیر آباد میں تباہ کاریوں کا اندازہ سو ارب سے زیادہ کا تھااس دورکے وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے خود اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نقصان کا اندازہ 100ارب روپے کا تھاجبکہ حکومت نے صرف بیس کروڑ روپے دیئے تھے۔
اس طرح بلوچستان کی دیہی معیشت تباہ ہوتی رہی لیکن وفاقی حکومت نے اس کا ازالہ کبھی نہیں کیا ۔ موجودہ وفاقی وصوبائی حکومت بلوچستان میں موجودہ قحط سالی کے معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس آفت سے ہزاروں لوگوں کو بچانے کے اقدامات کر ے کیونکہ دیہی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس وقت شدید متاثر ہے اور امداد کی منتظر ہے، اگرمزید تاخیر یا لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا تو بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کا اندیشہ ہے ۔
لہٰذا ہنگامی بنیادوں پر خاص کر چاغی، کچھی اور تربت میں متاثرہ لوگوں کو ریلیف پہنچانے کے کام کا آغاز کیا جائے تاکہ غریب صوبے کے عوام مزید نقل مکانی پر مجبور نہ ہوں۔ ضروری ہے کہ ان کی ہر قسم کی مدد کی جائے۔