گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں روزگار فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا اسمگلنگ زون ہے جہاں سے صنعتوں اور تجارت کا صفایا سرکاری طور پر کیا گیا ہے تاکہ بلوچستان میں روزگار کے ذرائع موجود نہ ہوں اور نہ ہی مزاحمتی معیشت کا وجود ہو۔
کراچی سے صرف چند میل کے فاصلے پرحب میں صنعتی شہر آباد کیا گیا اور جب یہ فیصلہ ہوا کہ لاہور اور سطی پنجاب میں درجنوں صنعتی شہر قائم کرنے ہیں تو سندھ اور بلوچستان میں صنعتوں سے وہ تمام مراعات واپس لے لی گئیں اور سرمایہ کاری کا رخ وسطی پنجاب کی طرف پھیر دیا گیا۔ ابھی تک غیرملکی اور ملکی سرمایہ کاری کا رخ وسطی پنجاب کی طرف ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب آئے دن غیرملکی دوروں پر رہتاتھا۔ وزیر خارجہ سے زیادہ غیرملکی دوروں پر رہ کر اکثر وبیشتر مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدات پر دستخط کرتے رہتے اور ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ پوری سرمایہ کاری کا محور پنجاب ہو۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بلوچستان میں کسی فرد واحد یا غیرملکی کمپنی نے سرمایہ کاری کی خواہش کااظہار کیا ہو۔ بلوچستان میں روزگار کا واحد ذریعہ صرف صوبائی حکومت اور اس کے ادارے ہیں۔
سالانہ تیس ہزار سے زائد طلباء تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوکر بے روزگاروں کی وسیع فوج میں شامل ہورہے ہیں اور اب تک یہ فوج لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ماضی میں یہ روایت دیکھنے کو ملی کہ بلوچستان میں وزراء اور ایم پی اے حضرات اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے روزگارکے ذرائع پر جابرانہ قبضہ کرتے رہے ۔
پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں، پارٹی کارکنان کو کھپاتے تھے اور باقی بچنے والے پوسٹوں کو نیلام کرتے نظرآتے تھے۔ معمولی سرکاری نوکری کیلئے رشوت کا ریٹ پانچ لاکھ سے دس لاکھ تک پہنچ گیاتھا۔ ملازمت فراہم کرنے کا کاروباروزراء اور ایم پی اے حضرات کے ہاتھوں میں دیکھنے کو ملتا تھا میرٹ نام کی کوئی چیز گزشتہ تیس سالوں سے دیکھنے کو نہیں ملی۔ آنے والے دنوں کا کچھ نہیں کہہ سکتے۔
لاکھوں بے روزگار نوجوان خصوصاََتعلیم یافتہ نوجوان شدید مایوسی کا شکار ہیں ان کے دل کوبہلانے کیلئے کبھی گوادر اور کبھی سی پیک کی نوید سنائی جاتی ہے جس کو مکمل ہونے اور فعال ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ 80ء کی دہائی میں غیر جماعتی انتخابات کے بعد سیاست پر غیر سیاسی لوگوں خصوصاََ تاجروں کا قبضہ ہوا ۔سابق حکمران چونکہ تاجر تھے صنعت کارتھے اس لیے وہ ملک کے تمام معاملات کو تاجروں اور صنعت کاروں کی نگاہ سے دیکھتے تھے، سیاست اورخصوصاََ قومی اور صاف ستھری سیاست سے ان کا دور کا کبھی گزر ہوا ہی نہیں۔
اس لئے ان کی غلط پالیسیوں نے ملک کو معاشی طور پر تباہی کے دہانے پرلا کھڑاکردیا۔ ویسے بات بلوچستان کے حوالے سے کی جائے تو بلوچستان ہر طرف سے آفات میں گھرا ہوا ہے جہاں وسائل تو بے تحاشا ہیں مگر مسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں ۔یہ ضرور ہے کہ یہاں کے وسائل کا فائدہ اٹھاکر بہت سے لوگ مسائل سے نکلے البتہ بلوچستان اسی مقام پر ہی کھڑا ہے جہاں ستر سال پہلے تھا۔
یہ بدقسمتی کی بات نہیں کہ آج بلوچستان حکومت شدید مالی بحران کا شکار ہے اس کے اسباب اور وجوہات کیاہیں صرف ہم پی ایس ڈی پی اور بجٹ میں غیر ضروری ترقیاتی اسکیمات کو شامل کرنے کو بحران کی وجوہات نہ ٹھہرائیں، اس بات کو بھی تسلیم کیاجائے کہ وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کے وسائل کو مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا اور کبھی بھی اسے جائزحصہ تک نہیں دیا ۔اگر بلوچستان کو پچیس فیصد حصہ بھی جائز انداز میں ملتا تو شاید آج صورتحال کچھ اور ہی ہوتی مگر شومئی قسمت کہ بلوچستان کو کبھی اس قابل ہی نہیں سمجھا گیا۔
بلوچستان میں بیروزگاروں کی فوج
وقتِ اشاعت : October 30 – 2018