ملک کے دیگر صوبوں کی طرح جس طرح بلوچستان پسماندگی اور محرومیوں کاشکار ہے اسی طرح کوئٹہ شہر دیگر دارالخلافوں کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے، کوئٹہ شہر میں وہ تمام مسائل موجود ہیں جو ملک کے باقی بڑے شہروں میں نہیں پائے جاتے۔
کوئٹہ شہر میں پانی اور سیوریج کا نظام تک موجود نہیں المیہ یہ ہے کہ حال ہی میں ایک بہت بڑا انکشاف ہوا کہ کوئٹہ شہر میں 1505 کلومیٹر پانی کے پائپ لائن بچھائے گئے جس کا تخمینہ دس ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ اتنا پانی ہے ہی نہیں جسے شہریوں تک ان پائپ لائنوں کے ذریعے پہنچایا جاسکے، جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔
کوئٹہ کو پانی فراہم کرنے والا منصوبہ پٹ فیڈرکینال دس سال گزرجانے کے باوجود اب تک مکمل نہیں ہوا جبکہ متواتر اس پر پیسے خرچ کئے جارہے ہیں۔دوسرامانگی ڈیم کی بنیاد گزشتہ حکومت نے رکھی جس پر کام جاری ہے، شہر میں اب تک زیر زمین پانی کی سطح 1200 فٹ سے زائد گرچکی ہے تو دوسری جانب بااثر افراد نے غیر قانونی ٹیوب ویلزکے کنکشن لگا رکھے ہیں جن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی۔ عوام ٹینکرمافیا کے ہاتھوں یرغمال ہے جبکہ غریب کے دسترس سے پانی تو بالکل دور ہے۔
کوئٹہ شہر کے بعض علاقوں میں سیوریج کا نظام موجود نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے۔ شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے نالوں کی بندش اور تعفن کی وجہ سے شہری مختلف وبائی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔
کوئٹہ جیسے بڑے شہر میں صرف ایک سول ہسپتال موجود ہے جہاں عوام کو کوئی سہولیات میسر نہیں ، ہسپتال میں ادویات سمیت علاج ومعالجے کیلئے مشینری موجود نہیں ،شہری مجبور ہوکر پرائیوٹ سینٹرز سے اپنے ٹیسٹ کراتے ہیں اور ادویات خریدتے ہیں جبکہ گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ بجٹ کے دوران صحت کے لیے خطیر رقم مختص کررکھی تھی یہ بھاری بھرکم بجٹ کہاں خرچ ہوئی کسی کے علم میں نہیں۔
کوئٹہ میں تعلیم کی حالت یہ ہے کہ بعض علاقوں خاص کر سریاب میں سرکاری اسکولوں کے لیے رہائشی گھر کرایہ پر لئے گئے ہیں جبکہ دوسری طرف صوبہ میں تعلیمی ایمرجنسی بھی نافذ ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر علاقوں میں سرکاری تعلیم کانظام کیسا ہے۔160 شہر میں ٹریفک کانظام موجود نہیں ،آبادی کی شرح بڑھتی جارہی ہے جبکہ کوئٹہ آج بھی اپنے پرانے نقشے پر چل رہا ہے۔
گزشتہ حکومت نے کوئٹہ پیکج کے نام پر اربوں روپے کااعلان کیا جس میں شہر میں برج، انڈر پاسزسمیت پارکنگ پلازہ بنانا شامل تھا مگر اب تک شہر میں صرف دو پْل بنائے گئے ہیں جبکہ شہر کی ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح گاڑیوں کی پارکنگ کا کوئی نظام سرے سے موجودہی نہیں۔
اہم تجارتی مراکز کی شاہراہوں پر گاڑیاں پارک کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوکر رہ جاتی ہے ،پورے شہر میں لنک روڈ نہ ہونے کے باعث ٹریفک گھنٹوں جام رہتی ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے یہاں حکومتوں کی کارکردگی کیا رہی ہے۔
کوئٹہ شہر میں بدامنی بھی ایک بڑامسئلہ بنا رہا ہے ماضی میں شدت پسندوں کی جانب سے بم دھماکے، خود کش حملے کئے گئے جس کی وجہ یہاں موجود غیر ملکی باشندے ہیں خاص کر افغان مہاجرین جو عرصہ دراز سے یہاں رہائش پذیر ہیں اور انہوں نے غیر قانونی طریقے سے اپنے شناختی کارڈ بھی بنائے ہیں۔
ان میں بعض مہاجرین دہشت گردی میں ملوث بھی پائے گئے ہیں۔ ملک کایہ واحد دارالخلافہ ہے جو مسائل میں گرا ہوا ہے جس کی وجہ ایک تو مرکزی حکومت اور دوسری یہاں کی حکومتیں رہی ہیں جنہوں نے شہری مسائل کے حل پر کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی۔
لٹل پیرس کہلائے جانے والا کوئٹہ آج مسائل کا گڑھ بن چکا ہے جس سے متعلق یہ کہنا بجا ہوگا کہ کوئٹہ لاوارث بن چکا ہے، نئے پاکستان میں خدا کرے کہ کوئٹہ شہر کے لیے بھی کوئی اچھا کام ہوسکے۔160