|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2018

بلوچستان کی گزشتہ صوبا ئی حکومت نے اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں سالانہ بجٹ سے 2017۔18کے مالی سال میں محکمہ تعلیم کیلئے 46 ارب روپے رکھے جس میں 500پرائمری اسکولوں کو مڈل جبکہ پانچ سو مڈل کو ہائی کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔

ٹیکسٹ بک کی چھپائی اور سپلائی کے لیے 30 کروڑ روپے مختص کئے گئے، بلوچستان کی پانچ یونیورسٹیز کے لیے 2 ارب 84 کروڑ روپے مختص کئے گئے جبکہ کالجز کے لیے8 ارب روپے اور 1 سو 19 کالجز میں فرنیچر کے لیے دس کروڑ روپے مختص کئے گئے ، مگر بجٹ کا 35فیصد حصہ بھی خرچ نہیں کیا جا سکا۔

2016۔17 کے بجٹ کا سب سے بڑا اور اہم حصہ لڑکیوں کے اسکولوں میں صاف پینے کے پانی کی فراہمی اور واش رومز کی تعمیر کا تھا جس کے لیے ایک ارب روپے کا اعلان کیا گیا تاہم یہ خطیر رقم اور میگا اسکیم صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہی۔ محکمہ تعلیم نے چار سال کے دوران صرف اساتذہ کی بھرتیوں پر زوردیا ، بلوچستان کے محکمہ تعلیم میں ساڑھے چار ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا گیا ۔

چار سال کے دوران تعلیم کی اہم وزارت پشتونخواء میپ کے پاس رہی ۔اگر بلوچستان میں تعلیمی میعار کا جائزہ لیا جائے تو صوبے کے 19 لاکھ 81 ہزار سے زائد بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں صوبے میں گیارہ سو 21 پرائمری اسکولز،ایک ہزار 20مڈل اسکولز،119 کالجز ہیں۔

تاہم اگر یہاں تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو صوبے کے 90 فیصد پرائمری اسکول پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، سات ہزار بنا چھت کے قائم ہیں،9 ہزار 5 سو اسکولوں میں بیت الخلاء موجود نہیں، 25 ہزار اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں ،13 سو سکول عمارتوں سے محروم ہیں۔ 

کاغذوں میں موجود چار سو سے زائد اسکولوں کا تعین بھی تاحال نہیں کیا گیا ہے، تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم 32 فیصد بچے اردو کا قاعدہ نہیں پڑھ سکتے، 65 فیصد بچوں کو انگلش کے حروف کی پہچان نہیں، 75 فیصد بچے ریاضی کے جمع تفریق کے بنیادی سوالات حل نہیں کر سکتے۔ 

بلوچستان میں گزشتہ حکومت نے جس طرح تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی تھی اور خطیر رقم مختص کی تھی اس کا نتیجہ صفر برآمد ہواہے۔ آج تک اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکا کہ اتنی بڑی رقم کہاں گئی؟ ضروری ہے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے کمیشن تشکیل دیکر ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائے جنہوں نے کرپشن کی ہے اور صوبہ کے غریب بچوں کے مستقبل سے کھیلا ہے تاکہ آئندہ بلوچستان کے غریب عوام کے ساتھ اس طرح کا ظلم نہ ہو۔ 

یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بلوچستان کو اندھیرے سے نکالنے کیلئے اپنا مخلصانہ کردار ادا کریں کیونکہ بلوچستان کو ایک تابناک اور روشن مستقبل اس کی آنے والی نسلیں فراہم کرسکتی ہیں جس کا منبع تعلیم ہے۔