|

وقتِ اشاعت :   November 3 – 2018

بلوچستان کی معدنی دولت صرف اور صرف بلوچستان کے عوام اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہونی چائیے ۔ یہ کسی غیر ملکی کمپنی کے لئے نہیں ہیں کسی کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں ہونی چائیے کہ وہ بلوچستان کی معدنی دولت کو لوٹ کر لے جائے ۔ ہمارے سامنے دو واضح مثالیں موجود ہیں۔

پہلا سندھک سونے اور تانبے کے ذخائر کا جس سے بلوچستان کے عوام کو ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں پہنچا، چین بڑی تعداد میں مزدور، کارکن چین سے لے کر آیا ۔

مقامی لوگوں کو روزگار سے محروم رکھا۔سب سے بڑھ کر یہ کہ چین نے سندھک کی ذمہ داریاں سنبھالتے وقت میڈیا کے سامنے اعلان کیا تھا کہ چین کی کمپنی سندھک میں ریفائنری قائم کرے گی اس کے لئے وہ حکومت پاکستان کو دو کروڑ ڈالر یا بیس ملین کا قرضہ فراہم کرے گا، یہ ریفائنری سندھک کے مقام پر تانبے کو سونے سے الگ کرے گا اس سے حکومت پاکستان اور عوام کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہاں سے کتنی مقدار میں سونا اور کتنی مقدار میں تانبہ حاصل ہوا۔

15سال سے زائد کاعرصہ گزرگیا، چین نے یہ ریفائنری بلوچستان میں قائم نہیں کی، ایسے لگتا ہے کہ جیسے پہلے سے ہی اس کی ایسی کوئی نیت نہیں تھی۔سندھک سے پوری پیداوار کو چین لے جایا گیا اور وہاں سے سونے کو تانبہ سے الگ کرکے ساری دولت ہڑپ کرلیا گیا، حکومت پاکستان کو معلوم ہی نہیں کہ سندھک سے کتنا سونا حاصل ہوا۔ 

دوسری طر ف بات کی جائے گوادر کی تو المیہ یہ ہے کہ گزشتہ 16سالوں سے گوادر کو پینے کا پانی فراہم نہ ہو سکا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گوادر میں ترقی کی رفتار کیا ہے۔بلوچستان کی معدنی دولت صرف بلوچستان کے عوام کی ہے ، اس کو محض ڈھائی فیصد رائلٹی پر وفاقی حکومت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جیسے سندھک کے ساتھ کیا گیا اور ساری دولت چینی لے گئے اور جو کچھ باقی بچ گیا تو وہ وفاق کے حصے میں آیا اور بلوچستان اپنی ہی دولت سے خالی ہاتھ رہا۔

لہذا صوبائی حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ بلوچستان کی معدنی دولت کو صرف حکومت بلوچستان استعمال کرے۔ بین الاقوامی مارکیٹ سے قابل ترین ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں۔صاف اور ایماندار افراد پر مشتمل ایک افسر ان کی ٹیم بنائی جائے اور اس کے ذمے یہ کام لگایا جائے کہ وہ سندھک کو چلائے۔ 

ریکوڈک بھی اس ادارے کے ماتحت ہو تاکہ پوری کی پوری معدنی دولت کسی شخص اور کمپنی کے ذاتی منافع کا حصہ نہ بنے۔ہم سیاسی پارٹیوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کی حمایت کریں گی کہ تمام بڑے بڑے پروجیکٹس حکومت بلوچستان کی ملکیت ہوں اور اس کا تمام تر منافع جو کھربوں ڈالر میں ہوگا۔

عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اس وقت چین کے دورے پر ہیں ان سے بلوچستان کے عوام کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ سی پیک معاہدوں میں بلوچستان کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے صحیح معنوں میں صوبے کاکیس لڑیں گے۔ 

پاک چین دوستی ایک عظیم رشتہ ہے جو معاشی حوالے سے زیادہ مضبوط ہوتا جارہا ہے دونوں طرف سے بہترین ہم آہنگی ترقی کی رفتار کو تیز کرے گی جس کیلئے اس بات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان کو ان تمام منصوبوں میں مکمل مالی منافع ملنا چاہئے ، ماضی کی طرح نہیں ہونا چائیے جہاں صرف کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا اور وفاق اپنا حصہ لیتارہا جبکہ بلوچستان کو کچھ نہیں ملا۔ 

لہذا ہمیں ان تلخ تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے وسائل کے حوالے سے کسی بھی ایسے معاہدے میں فریق نہیں بننا چائیے جہاں ہمارے وسائل کو لوٹنے کے منصوبے بنائے جارہے ہوں اور عسرت و پسماندگی کو بلوچستان کے عوام کا مقدر بنایا جارہا ہو۔ ہمارے وسائل، ہمارا اختیار ہمارا پہلا اور آخری نعرہ ہونا چائیے اور اس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹنا چائیے۔