|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2018

بلوچستان سے امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جہاں پر بلوچستان سے امتیازی سلوک نہ برتا جارہا ہو۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے نصف پاکستان ہے اگر سمندری حدود کو شامل کریں تو یہ نصف سے بھی زیادہ ہے۔بلوچستان میں تقریباََ دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین موجود ہے اس میں 75لاکھ ایکڑ صرف کچھی اور سبی کا میدانی علاقہ ہے اتنے وسیع علاقے میں صرف پٹ فیڈر وہ واحد نہر ہے جو صرف چند لاکھ ایکڑ زمین آباد کرتی ہے۔

دوسرا نہر کیرتھر ہے جہاں صرف 1400 کیوسک پانی دیاجارہا ہے صوبائی حصے سے پٹ فیڈر کو چھ ہزار کیوسک پانی ملنا چاہئے جس سے تقریباََ پانچ لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی لیکن پٹ فیڈر میں گزشتہ ایک سال سے زائد عرصہ سے 1500کیوسک پانی چھوڑا جارہا ہے اس کی بڑی وجہ سندھ اور پنجاب میں نہری پانی کی چوری ہے اور ایک مقصد بلوچستان کے پانی کو غصب کرنا بھی ہے۔ 

ادھر کیرتھر کینال میں صرف 800کیوسک پانی گزشتہ 8ماہ سے مل رہا تھا، پٹ فیڈرمیں پانی کی کمی کی شکایات گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل آرہی ہیں، وجہ یہ ہے کہ سابق صوبائی حکومت میں کرپشن کی وجہ سے نہر کو صاف کرنے کاکام نہیں ہوا،افسروں اور ٹھکیداروں نے ملی بھگت سے رقم ہڑپ کرلی اس طرح بھل صفائی کا کام شروع ہی نہ ہوسکا۔ پٹ فیڈر کا پانی پینے اور گھریلو استعمال میں لایاجاتا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ سینکڑوں گاؤں کو پینے کے پانی سے محروم کردیا گیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پٹ فیڈر کے قرب وجوار میں گھریلو استعمال کے لئے مناسب اور صاف پانی عوام کوفراہم کیا جاتا مگرماضی کی حکومت اور محکمہ آبنوشی نے اس پر کبھی توجہ نہیں دی۔ ماضی کی صوبائی حکومتوں نے دور دراز علاقوں کے انتظامی اور معاشی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور معاملات چھوٹے افسران پر چھوڑ دیا جبکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر صاحبان بھی ان مقامی معاملات پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ 

تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ بلوچستان کے دوبڑی نہروں کو ان کے کوٹے کا پانی نہیں8 مل رہا، یہاں تک کہ بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کے باوجود بلوچستان میں نہری پانی کی قلت محسوس کی جارہی ہے ۔ پہلی فرصت میں ان افسروں اور ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے رقم وصول کی مگر بھل صفائی نہیں کی ۔

مزید یہ کہ وفاق، سندھ اور پنجاب کی حکومتوں سے رابطہ کیاجائے اور بلوچستان کے حصے کا پانی حاصل کیاجائے تاکہ بلوچستان کی لاکھوں ایکڑ زمین آباد ہو اورنئی حکومت کچھی کینال کو مکمل کرنے پر زور دے ۔ کچھی کینال کو صرف 72 ہزار ایکڑ زمین بگٹی علاقے میں آباد کرنا نہیں تھا بلکہ اس کو کچھی کے میدانی علاقے میں 7لاکھ ایکڑ زمین سیراب کرنا ہے اس پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 50 ارب روپے لگایا گیا تھا۔

وفاقی حکومت میں کرپشن کا تناسب اتنا اونچا تھا کہ کچھی کینال کے پہلے مرحلے کی تعمیرات پر 80 ارب روپے خرچ کئے گئے، یہ سب رقم اعلیٰ ترین واپڈا افسران اور ٹھکیداروں نے ہضم کرلیا۔ 

وفاقی حکومت یہ بات یقینی بنائے کہ کچھی کینال کو مکمل کیاجائے گااور اس سے 7لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی۔ اس معاملے پر بلوچستان کی حکومت وفاقی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے بہانے کو تسلیم نہ کرے اور اس کی تکمیل پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے تاکہ کچھی کینال ہر صورت مکمل ہوسکے۔