ایرانی صدر حسن روحانی کاکہنا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے دوبارہ عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کو توڑینگے۔ اس سے قبل امریکی حکومتوں نے عراق،، شام، لیبیا کو تباہ کردیا تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو کوئی فوجی خطرات لاحق نہ ہوں۔
ترکی تو نیٹو کارکن اورمغرب کا آزمودہ اتحادی ہے اور اچھے سپاہیوں کے زمرے میں آتا ہے اس لیے اس کو خطرات لاحق نہیں ہیں البتہ ایران کا تعلق مختلف فریق سے ہے وہ امریکی سربراہی اور احکامات کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسلامی انقلاب کے بعد سے آج تک ایران امریکی ہدف میں شامل رہا ہے۔
اگر بات کی جائے پاکستان سے تعلقات کی تو حالیہ چند سالوں سے پاک امریکہ تعلقات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں حالانکہ کئی دہائیوں تک پاکستان امریکہ کا فوجی اور معاشی اتحادی رہ چکا ہے اس کے باوجود پاکستان کی بجائے بھارت اور افغانستان امریکی اتحادی بن گئے ہیں۔
امریکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کوخاص اہمیت دیتا ہے یہاں تک کہ بھارت کے ساتھ فوجی معاہدہ بھی کیا ہے جس کی رو سے امریکی افواج خصوصی مقاصد کے حصول کیلئے بھارت میں تعینات ہونگی۔ بھارت کے پاس بہت بڑی فوج ہے چین کے بعد بھارت کی فوج بڑی ہے پھر بھی بھارت کو امریکی افواج کو اپنے ملک میں تعینات کرنے کی کیا پڑی ہے۔
ابھی تک یہ معمہ حل نہیں ہوا کہ امریکہ کیوں بھارت میں اپنی فوج تعینات کرنا چاہتا ہے حالانکہ خطے میں درجنوں چھوٹے چھوٹے عرب ممالک موجود ہیں جہاں پرامریکہ آسانی کے ساتھ اپنی افواج تعینات کرسکتا ہے ،اس کا جواب اب تک واضح نہیں ہے اور بھارت خاموش ہے اس طرح سے پاکستان کی تشویش جائز ہے لیکن ٹرمپ حکومت کی پالیسی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ایران ہی کو ہدف بنائے گا۔
ایران کے خلاف سنگین الزامات لگانے کا سلسلہ جاری ہے خصوصاََ دور مار میزائل کے تجربے کے بعد اس میں زیادہ شدت لائی گئی ہے ،دنوں میں نہیں صرف گھنٹوں میں امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کردی تھیں اور درجن بھر معاملات کو ٹارگٹ بنایا تھا۔
اس میں ایران کو بوئنگ طیاروں کی فروخت پر پابندی نہیں لگائی گئی ایران پر جوبڑا الزام لگایاگیا وہ یہ ہے کہ وہ اس میں خطے میں بدامنی پھیلاناچاہتا ہے اور اسلامی انقلابی گارڈز کو ایک فوجی قوت کے طور پر کرنا شامل ہے، امریکہ نے اس پر بھی پابندی عائد کردی تھی امریکہ نے یہ الزام لگایا ہے کہ ایرانی مسلح دستے عراق، شام یمن میں موجود ہیں اور مقامی جنگوں میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ لبنان کے حزب اللہ کو ایران سے مالی امداد بھی مل رہی ہے ۔
مختصراََ یہ امریکہ ایران کے گھرد گھیرا تنگ کررہا ہے امریکہ اس سے قبل بھی یہ کہہ چکا ہے کہ ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کا آپشن موجودہے۔ دوسری جانب ایران نے پہلے بھی ان تمام الزامات کو رد کردیا تھا اوراب بھی اعلان کیا ہے کہ ملک کے دفاع کیلئے اقدامات اٹھانے میں وہ کسی سے بھی اجازت طلب نہیں کرے گا۔
اس سے قبل ایٹمی مذاکرات کی کامیابی کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے ایران پرسے بعض پابندیاں اٹھالی تھیں اور ایران نے ایٹمی مواد روس اور بعض مغربی ممالک کو فروخت کرکے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا اوراس کی تیاری کے خلاف ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کاکہنا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے دوبارہ عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کو توڑیں گے۔ٹرمپ انتظامیہ کاکہنا ہے کہ 2015 میں جوہری معاہدے کے تحت ایران پر سے جو پابندیاں ہٹائی گئی تھیں انہیں دوبارہ لاگو کیا جارہا ہے۔
ان پابندیوں کا ہدف ایران میں تیل کی صنعت اور بنکاری کا شعبہ ہے۔تاہم ایرانی صدر نے کہا ہے کہ ایران تیل کی فروخت جاری رکھے گا۔ اقتصادی امور کے اہلکاروں کے ایک اجلاس میں ان کاکہناتھاکہ ہم فخر سے یہ پابندیاں توڑیں گے۔وہ یورپی ممالک جو ابھی بھی جوہری معاہدے کا حصہ ہیں وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ پابندیوں کے باوجود کام جاری رکھنے میں مدد کریں گے تاہم اب یہ واضح نہیں کہ ایسا کس حد تک ممکن ہو سکے گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کاکہناہے کہ ایران اپنے اقتصادی معاملات چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے امریکہ اس طرح کے اقدامات سے کبھی اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔
دوسری جانب برطانیہ، جرمنی، فرانس اور یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ نے ایک مشترکہ بیان میں امریکہ کی طرف سے ایران پر پابندیاں بحال کرنے کے اقدام پرانتہائی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جائز قانونی کاروبار کرنے والے افراد کو یورپی یونین کے قانون اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2231 کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے گا۔واضح رہے کہ ایران میں حالیہ پابندیوں پر ملک بھر میں امریکہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ۔
مظاہرین کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت بھی کی گئی۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے شعبوں میں جہاز رانی، سمندری جہاز بنانے کی صنعت، مالیات اور توانائی شامل ہیں۔
ایران ایک بار پھر امریکی نشانہ پر
وقتِ اشاعت : November 6 – 2018