وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے کہاہے کہ بلوچستان کی سرزمین کسی کو بھی فروخت نہیں کرینگے،سرمایہ کاری کیلئے زمین لیز اور کرایہ پر دینگے، بلوچستان کی سرزمین کے حوالے سے جو بھی بات ہوگی وہ حکومت بلوچستان کرے گی ،بلوچستان میں سرمایہ کاری سمیت ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حکومت بلوچستان سے بات کی جائے ،وفاق سہولت کار ضرور ہے لیکن فیصلہ حکومت بلوچستان کرے گی ،صوبے کی زمین کو محفوظ بناکر سرمایہ کاروں کو لاکر بیروزگاری کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔
حکومت بلوچستان میں سرمایہ کاری لانے کیلئے دوماہ بعد چین ،خلیجی ممالک ،یورپ سمیت دیگر ممالک میں روڈ شوز کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کررہی ہے،سی پیک کے مغربی روٹ کا کوئی تصور نہیں ،سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے منصوبے کو مغربی روٹ کا نام دے کر افتتاح کیا۔
ہمیں مغربی روٹ کی پٹڑی پر ڈال کر تمام ترقی مشرقی علاقوں میں کی گئی ،سی پیک صرف ایک روٹ ہے جسے گزشتہ حکومت نے خود متنازعہ بنایا، اس کے گرانٹ میں ایک روپیہ بھی نہیں، ابتدائی مرحلے میں 55ارب ڈالر میں سے 28ارب ڈالر خرچ کئے جاچکے ہیں۔
شنگھائی امپورٹ ایکسپوجیسے اقدامات سے حوصلہ ملا ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کے بہت سے وسائل اور مصنوعات جن میں زراعت ،ماہی گیری ،لائیو اسٹاک،سیاحت جیسے شعبہ جات شامل ہیں کی چینی مارکیٹ میں اہمیت ہے ہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہوسکتے ہیں۔
اگر ہم سوچیں کہ سرمایہ کار خود آکر یہاں اپنا پیسہ لگائیں گے تو یہ ہماری خام خیالی ہے ہمیں بلوچستان میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنا ہے اسکے لیے اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کریں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اپنے حالیہ دورہ کے بعد میڈیا نمائندوں سے جو بات چیت کی یقیناًوہ سوفیصد سچ ہے مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ چائنا اکنامک کوریڈور میں ہم کہاں کھڑے ہیں، بلوچستان کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے۔
یہاں کے عوام کی بہتری کے لیے بھی کوئی منصوبہ ہے یا صرف یہاں کے وسائل اور سرزمین پر نظر ہے جس کی لوٹ مار کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور ہماری شرکت صرف دکھاوے کے لیے ہے ۔
دنیا میں کوئی بھی ملک یا کمپنی کسی بھی معاہدے یا سودے بازی میں اپنے منافع کو پہلی ترجیحات میں رکھتا ہے لیکن ہماری مثال سب سے نرالی ہے ۔ ہماری سرزمین کے وسائل کا سودا کیا جاتا ہے اور ہمیں صرف ڈھائی فیصد پر ٹرخایا جاتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، سیندھک میں تو یہی سب کچھ ہوا۔
سیندھک اورریکوڈک جیسے اہم منصوبوں سے کس نے فائدہ اٹھایا اور کمپنی نے کس طرح اپنے انجینئرزاورلیبر کو یہاں لے آیا جبکہ ہم ہاتھ ملتے رہ گئے کیونکہ ہمارے پاس واضح حکمت عملی نہیں گوکہ ہم اپنی سرزمین لیز اور کرایہ پر دینگے ۔
اس سے قبل بھی ہم کسی غیرملکی کو زمین فروخت نہیں کی ، ریکوڈک پر بھی معاملہ لیز سے ایک کیس کی طرف بڑھا اور بعد میں اس اہم منصوبے پر بڑے پیمانے پر کرپشن اور لوٹ مار کی رپورٹ سامنے آئی، نتیجہ یہ نکلا کہ غیرملکی کمپنی نے کیس کیا جس کے بعد جو جرمانہ لگایا گیا وفاق نے ہاتھ کھینچ لیا اور سارا بوجھ بلوچستان پر ڈال دیا گیا ۔
حالانکہ یہ سب کے علم میں ہے کہ جب تک پروجیکٹ چل رہا تھا، وفاق اپنا منافع لے رہا تھا جبکہ بلوچستان کو کچھ بھی نہیں ملا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ جہاں ہم بلوچستان کی سرزمین کے تحفظ کا عہد کررہے ہیں اسی طرح ہمیں کمپنیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاہدے کرنے چاہئیں، مالی منافع کے علاوہ بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ان میں ہمارے ماہرین اور لیبر کی مکمل شراکت داری ہو جو کہ ماضی میں نہیں کی گئی۔
موجودہ حکومت سے ہم بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں وہ ایک مثالی کارنامہ سرانجام دیتے ہوئے بلوچستان کی سرزمین اور وسائل پر ہونے والے معاہدوں میں برائے راست خود فریق بنے گی تاکہ نفع ونقصان ہمارے حصہ میں آئے ایسا نہ ہوکہ فائدہ وفاق اٹھائے اورنقصان ہم ۔ امید ہے کہ صوبائی حکومت بلوچستان کے مفادات کا ہر سطح پر تحفظ کرے گی۔
سی پیک منصوبہ میں بلوچستان خود فریق بنے
وقتِ اشاعت : November 9 – 2018