|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2018

گزشتہ حکومت نے ریل کے ذریعے گوادر کی بند رگاہ کو جیکب آباد سے ملانے کااعلان کیاتھا۔ گوادر، خضدار، جیکب آباد ریلوے ٹریک بچھایا جاناتھا۔ ریلوے ٹریک کی تعمیرکب شروع ہوگی،اس کو مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا اور اس پر کتنی لاگت آئے گی، یہ تمام تفصیلات سابق وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے نہیں بتائیں تھیں جس پر ہم سابق وفاقی وزیر کے مشکور ہیں کیونکہ بلوچستان میں جب بھی بڑے منصوبوں کا اعلان کیاجاتا ہے توان کی تکمیل پر دہائیاں لگ جاتی ہیں۔

جیکب آباد سے ریل کے ذریعے منسلک کرنے کا مقصد گوادر کی بندر گاہ کو ملک کے تمام حصوں سے ملانا تھا ۔ضروری تو یہ ہے کہ گوادر پورٹ کو پہلے نوکنڈی اور زاہدان سے ملایا جائے یا گوادر کو کوئٹہ زاہدان سیکشن سے ملایا جائے کیونکہ فوری طورپر گوادر کی ضرورت وسط ایشیائی ممالک کو ہے ۔

جتنی جلدی گوادر کو کوئٹہ، زاہدان ریلوے ٹریک کے ساتھ منسلک کیاجائے گا اتنی ہی جلد گوادر پورٹ مکمل طورپر فعال ہوجائے گا اور پاکستان کو اربوں ڈالر کی آمدنی بھی شروع ہوجائے گی۔ 

اس منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کیاجائے اگر گوادر پورٹ کو فعال بنانا ہے۔ ملکی ضروریات کراچی کے دونوں بندر گاہیں پوری کررہی ہیں مگر اب تک گوادر پورٹ کاملکی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کردارخاص نظر نہیں آتاکیونکہ علاقے میں سینکڑوں میل تک کسی قسم کی معاشی سرگرمی نظر نہیں آتی۔

پورا بلوچستان اور سندھ کے ملحقہ دیہی علاقے ویران اور بنجر پڑے ہوئے ہیں معاشی سرگرمیوں کے دور دور تک نشانات نہیں ۔ابھی تک گوادر پورٹ کے لئے کوئی تجارتی کارگو نہیں ہے جس کی ضرورت افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کو ہے ۔ 

گزشتہ حکومت کی عدم دلچسپی واضح تھی کہ وہ ان کی ضروریات پوری کرنے کو تیا ر نہیں تھی اس لیے گوادر سے متعلق ہر منصوبہ پر کام ٹھپ پڑتا گیا۔160ان میں ریلویز ‘ ائیر پورٹ ‘ پانی کے منصوبے ‘ بجلی گھر کے علاوہ خود گوادر پورٹ کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ گزشتہ تین سالوں سے سستی کا شکار ہے۔ 

اس لیے اب دنیا نے گہرے سمندر کی بندر گاہ گوادر کو نظر اندازکرنا شروع کردیا ہے اور ان کی نگاہیں چاہ بہار کی بندر گاہ پر لگی ہوئی ہیں جس کے پہلے مرحلے کا افتتاح ہوگیا ہے اس پر ایران ایک ارب ڈالر خرچ کرے گا۔چاہ بہار بندر گاہ دراصل بندر عباس کا نعم البدل ہے بندر عباس اور ترکمانستان کے درمیان فاصلہ 2800کلو میٹر ہے جبکہ چاہ بہار اور گوادر سے یہ فاصلہ صرف 1400کلو میٹر ہے۔ اس سے کم وقت میں سامان کی ترسیل ہوگی۔

ایران بندر عباس سے سالانہ چھ ارب ڈالر کما رہا ہے۔ چاہ بہار کے فعال ہونے کے بعد ایران دس ارب ڈالر کمانے کا ارادہ رکھتا ہے۔چاہ بہار صوبہ بلوچستان کے علاوہ وسطی ایران کے بعض علاقوں کی تجارتی ضروریات کو پور اکررہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت گوادر پورٹ کو دنیا سے کوئٹہ ،زاہدان سیکشن کے ذریعے ملائے تاکہ بندر گاہ نہ صرف فعال ہو بلکہ ملک کے لئے اربوں ڈالر بھی کمائے ۔نوکنڈی معدنیات کا بہت بڑا مرکز ہے اس کا گوادر پورٹ کے ساتھ منسلک ہونا ضروری ہے تاکہ وسیع معدنیات کو دنیا بھر میں بر آمد کیا جاسکے بلکہ خام لوہے کو چاہ بہار کے اسٹیل ملوں کو فراہم کیا جاسکے۔

نوکنڈی کو ریلوے لائن کے ذریعے مغربی افغانستان سے ملایا جا سکتا ہے جس سے گوادر اور ترکمانستان کا فاصلہ مزید کم ہوجائے گا۔ہم وزیراعلیٰ بلوچستان کے اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارے پاس سرزمین ہے مگر اس کو کس طرح کارآمد بنانا ہے ۔

اس پر تجاویز اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے اگر ہم اپنی سرزمین کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس طرح کے بڑے منصوبے بنائیں تو ہم بندرعباس اور چاہ بہار سے کئی گنازیادہ آمدن کماسکتے ہیں ۔

بشرطیکہ ان منصوبوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے انہیں مکمل کیا جائے تو ہمارے یہاں معاشی انقلاب برپا ہوگا اور بلوچستان جو اس وقت مسائل میں گرا ہوا ہے ،ان سے نکل آئے گا اور اس کی مالی پوزیشن بہتر جائے گی جس کا سہرایقیناًموجودہ حکومت کے سر جائے گا۔