بلوچستان میں کرپشن کے حوالے سے انکشافات یا خبریں کوئی حیران کن بات نہیں ، گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر لوٹ مار کی گئی اور اس میں برائے راست وہی لوگ ملوث رہے ہیں جن آفیسران کی نگرانی میں یہ منصوبہ بن رہے تھے ۔
البتہ یہ اتنا آسان نہیں کہ افسر شاہی کرپشن کرے اور حکومت میں بیٹھے وزراء اور ایم پی اے حضرات چھپ کا روزہ رکھیں یقیناًکسی نہ کسی طریقے سے وہ بھی اس میں ملوث رہے ہیں ۔ بلوچستان میں کچھی کینال، پٹ فیڈر کینال جیسے بڑے منصوبے اسی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں جس سے نہ صرف پانی بحران سے نمٹا جاسکتا تھا بلکہ بلوچستان کے بنجرزمین آباد ہوتے جس سے زراعت کے شعبے کو فروغ ملتا۔
بلوچستان میں زیادہ تر لوگوں کی معیشت کا دارومدار زراعت سے وابستہ ہے مگر دن بہ دن پانی بحران کی وجہ سے زراعت تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے، اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع شدید قحط سالی کی لپیٹ میں ہیں ۔ضروری ہے کہ ایوان بالامیں ان منصوبوں کے متعلق بھی پوچھ گچھ کی جائے کہ کیوں یہ اہم منصوبے تاحال تعطل کا شکار ہیں جبکہ بجٹ میں ان کیلئے خطیر رقم مختص کی جاتی رہی ہے اور یہ پیسے کہاں خرچ ہوتے رہے ہیں۔
دوسری جانب سیندک اور ریکوڈک جیسے اہم منصوبوں سے بھی بلوچستان کو ایک آنے کا فائدہ نہیں پہنچا بلکہ اس دور کے حکمران اور آفیسران نے خوب مال کمایا، وفاق اور نجی کمپنی اپنا مالی منافع لیتی رہی ۔ اگر موجودہ حکومت واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو یہ بلوچستان کے عوام کا اول روز سے مطالبہ رہا ہے کہ بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر اور مالی بے ضابطگیوں کا حساب لیاجائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں ۔
گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں گزشتہ ادوار کے دوران اربوں روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے مطالبے پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے بلوچستان میں قومی دولت کے ضیاع سمیت کرپشن کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ۔ سینیٹ اجلاس میں توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کاکہنا تھاکہ حکومت بلوچستان کوئٹہ ائیرپورٹ پر تعمیراتی کام میں تاخیر اور دیئے جانے والے فنڈز کی تحقیقات کررہی ہے۔
گزشتہ دور حکو مت میں کوئٹہ ائیرپورٹ کی توسیع کا منصوبہ شروع کیا گیا حسب دستور یہ منصوبہ بھی تاخیر کا شکار ہوا جس کی وجہ سے اس کی لاگت میں بے حد اضافہ ہوا ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس منصوبے میں تاخیر کی وجوہات اور زائد اخراجات کی انکوائری شروع کی ہے اور 16 نومبر تک اس کی رپورٹ آجائے گی ۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کاکہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران 42 کھرب روپے بلوچستان کی ترقی کیلئے فراہم کئے گئے مگر ابھی بھی بلوچستان کی صورتحال ابتر ہے۔ ایوان بالامیں بلوچستان میں ہونے والی کرپشن کے متعلق پارلیمانی کمیشن بنانے کے مطالبہ کی ہر سطح پر حمایت کی جانی چاہئے تاکہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ ہوسکے اورجو عناصر اس میں ملوث رہے ہیں ۔
ان کو نہ صرف کڑی سزا دی جائے بلکہ ان سے لوٹی گئی رقم واپس لیکر بلوچستان کے عوام پر خرچ کئے جائیں ۔بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر نظررکھی جائے تاکہ ان میں کرپشن نہ ہو۔یہ صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس میں کلیدی کردار ادا کرے، امید ہے کہ یہ کمیشن غیر جانبدار ہوکر تحقیقات کرے گی اوراسے نتیجہ خیز بنائے ہوگی۔
بلوچستان میں کرپشن، تحقیقاتی کمیشن بننی چاہئے
وقتِ اشاعت : November 16 – 2018