|

وقتِ اشاعت :   November 17 – 2018

ایس پی محمد طاہر داوڑ کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا جس کے بعد 13 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ان کی لاش ملی ۔

ایس پی محمد طاہر داوڑ کی میت کی حوالگی میں بلاجواز تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جانب سے غیرسفارتی طریقہ کار اور میت غیرسرکاری افراد کے سپرد کرنے کے اصرار کی وجہ سے مقتول کے سوگواران کو شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا جس سے بچا جا سکتا تھا۔ 

آئی ایس پی آر نے بھی ایک پیغام میں ایس پی محمد طاہر داوڑ کے قتل کی مذمت کی ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا اغوا، ان کی افغانستان منتقلی، ان کے قتل اور اس کے بعد افغان حکام کا رویہ کئی سوال اٹھاتا ہے۔ 

پاکستانی قوم نے ایک بہادر پولیس افسر کھو دیا ہے۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ افغان سکیورٹی فورسز کو سرحد پر باڑ لگانے کے عمل اور دو طرفہ باڈر سکیورٹی کورڈینیشن میں مدد کرنی چاہیے تاکہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف نہ استعمال کی جا سکے۔ 

واضح رہے کہ پشاور پولیس سے منسلک ایس پی محمد طاہر داوڑ کو 26 اکتوبر کو اسلام آباد سے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد 13 نومبر کو افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ان کی لاش ملی تھی۔ اس موقع پر افغان حکام نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ طاہر داوڑ کو قتل کرنے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ 

طاہر داوڑ کی میت لینے کے لیے طورخم سرحد پر سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی اور ایم این اے محسن داوڑ موجودبھی تھے۔ افغان حکام نے پاکستانی حکام کو طاہر داوڑ کی میت دینے سے انکار کردیا تھا اور وہ لاش محسن داوڑ کو دینا چاہتے تھے۔ 

تاہم بعد میں محسن داوڑ اور ان کے بھائی سمیت قبائلی عمائدین نے میت وصول کی۔ اس واقعے کے بعد پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ پاکستان نے 80 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو جگہ دی لیکن اس کے باوجود طاہر خان داوڑ کی میت کی حوالگی سے متعلق افغان حکام کا رویہ غیر مناسب تھا اور جو رویہ طورخم پر دیکھنے کو ملا وہ اذیت ناک تھا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکام نے طاہر داوڑ کی میت پاکستانی قونصل خانے کو دینے سے انکار کیا اور میت حوالگی کے بدلے کچھ مطالبات رکھنے کی کوشش کی جبکہ ڈھائی گھنٹے انتظار کے بعد میت حوالے کی گئی۔ حقیقت تو یہ ہے افغان حکام کی جانب سے انتہائی غیر مناسب رویہ اختیار کیا گیا اور وہ بھی ان حالات میں جب زیادہ قربت کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں ایک بہتر فضاء قائم ہوسکے۔ 

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں افغان مہاجرین آباد ہیں جن کا ہر طرح سے خیال رکھا جارہا ہے محض اس لئے کہ پاکستان امن چاہتا ہے اور ہمسایہ ممالک سے بہترین تعلقات کی خواہش رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس سب کے باوجود ایک ایسا رویہ اپنایا جارہا ہے جس سے فاصلے مزید بڑھیں گے۔ 

افغان قیادت کواپنے رویہ میں بہتری لاتے ہوئے سرحد پر باڑ لگانے سمیت سرحدی معاملات میں تعاون کرنا چاہئے تاکہ دہشت گردی جیسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے، جب تک سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو نہیں لیا جائے گا خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں لہذا افغان حکام بھی دیرپا امن کیلئے ایک مثبت سوچ رکھتے ہوئے اپنے رویہ میں تبدیلی لائے تاکہ پاک افغان تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوسکیں۔