پاکستان میں وسائل بے تحاشہ ہیں مگر انہیں اس طرح استعمال میں لایا گیاکہ ان کی سرعام لوٹ مار کی گئی اور ان سے بے تحاشہ دولت کمائی گئی جن میں وفاق، نجی کمپنیاں، سابق حکمران اور افسر شاہی شامل ہیں جنہوں نے کروڑوں اور اربوں روپوں کا غبن کیا۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاہمارے ہاں کرپٹ ذہنیت کا خاتمہ ہوچکا ہے یا نہیں ؟
نئی حکومت کی نیت پر شک فی الحال نہیں کیاجاسکتا مگر کیا اس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ حال ہی میں ہونے والے نئے معاہدوں اور منصوبوں سے یہاں کے عوام کو برائے راست فائدہ پہنچے گا اور ہمارے سرمایہ کار خود اس سرمایہ کاری میں برابر کے شریک ہونگے، لیبر ، انجینئرز، ماہرین پاکستان سے ہی ہونگے ۔
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ملک کی ترقی کی سمت کا تعین کرتے ہیں اگر اس حوالے سے واضح پالیسی بنائی جائے تو ماضی کی طرح ہونے والے کرپشن کا نہ صرف تدارک کیاجاسکتا ہے بلکہ غیرملکی کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابندبنایاجاسکتا ہے کہ وہ یہاں سوشل سیکٹر پر بھی توجہ دیں، صرف منافع نہ کمائیں۔
بلوچستان ہمارے سامنے ایک واضح مثال ہے جس سے متعلق ہمیشہ التجا ،مطا لبات اور احتجا ج تک کیا گیا کہ یہاں کے وسائل کو بڑے پیمانے پرلوٹ لیا جارہا ہے مگر بلوچستان کی آواز ہمیشہ صدا بصحرا ثابت ہوئی۔
نہ یہاں کے لیبر کو ترجیح دی جاتی ہے اور نہ ہی یہاں کے باصلاحیت و ہنر مند ماہرین کو پروجیکٹ کا حصہ بنایاجاتا ہے نتیجہ یہ رہا کہ سابق حکمران ، کمپنیاں اور افسر شاہی خوب پیسہ بٹورتی رہیں۔ بلوچستان کے ساتھ جس طرح کی زیادتیاں کی گئیں ہیں اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی ۔
بلوچستان سے نکلنے والی سوئی گیس سے آج بھی یہاں کے عوام محروم ہیں رائلٹی کی مد میں بلوچستان کے اربوں روپے آج تک ادا نہیں کئے گئے اگر یہ رقم بلوچستان حکومت کو مل جائے تو صوبہ مالی بحران سے نکل سکتا ہے اور اس رقم کو بلوچستان کے عوام پر خرچ کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی انسانی وسائل سے جڑے منصوبوں میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔
لیکن افسوس کہ اس کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ اب تو ایوان بالا میں بھی بلوچستان میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے آواز بلند ہورہی ہے مگر یہاں کے عوام نتیجہ چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بے تحاشہ وسائل ہیں لیکن ہمارے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے ان وسائل کا پانچ فیصد بھی تلاش نہیں کیا ۔
صرف چھ فیصد زمین پر تیل و گیس کے کنویں کھودے گئے ۔ اس دھرتی پر تانبے ، سونا اور جست کے بے پناہ ذخائر ہیں جنہیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے،جو ہم کررہے ہیں ۔ ہمارے پاس کم و پیش 500 ارب ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں ، لیکن یہ سب قومی خزانہ تب قوم کے کام آئے گا جب ملک میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور ادارے طاقتور ہونگے ، ادارے کمزور ہوں تو ملک امیر نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم نے سابق حکمرانوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ حکمرانی صرف اس لئے چاہتے ہیں کہ لوٹ مار کرسکیں ۔ملک میں کرپشن ہر دور میں کی گئی مگر ضروری ہے کہ اس مائنڈ سیٹ کا خاتمہ کیا جائے ۔
اس حوالے سے کسی سے کوئی رعایت نہ برتی جائے چاہے وہ حکمران جماعت سے ہو یا ان کے اتحادی جماعت سے ، جو بھی کرپشن کرے اس کے خلاف بلاتفریق کارروائی عمل میں لائی جائے ۔جب تک اس مائنڈ سیٹ کا خاتمہ نہیں ہوگا ہمارے یہاں کرپشن پھلتا پھولتا رہے گاخاص کر افسر شاہی میں موجود ایسے عناصر کی بیخ کنی ضروری ہے جن کی کرپشن سے سرکاری اداروں کا بٹھا بیٹھ گیا ہے اور جو کرپشن کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ ملک سے کرپشن کے خاتمہ سمیت یہاں کے وسائل کو عوامی ترقی وفلاح وبہبود کے لیے استعمال میں لایاجائے تاکہ عوام اس تبدیلی کو محسوس کریں جس کا دعوی ٰ کرکے یہ حکومت بنی ہے۔
بلوچستان پر خاص توجہ کی ضرورت ہے جس کی عوام ہمیشہ پستی رہی ہے ۔یہاں کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔اب وقت آگیا ہے ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیاجائے اور ترقی کی دوڑ میں یہاں کے لوگوں کی شراکت داری کو یقینی بنایاجائے۔
کرپٹ مائنڈ سیٹ کا خاتمہ ضروری ہے
وقتِ اشاعت : November 18 – 2018