|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2018

بلوچستان میں بہترتعلیمی نظام ہی مستقبل کو تابناک بناسکتی ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں تعلیمی میدان میں پیچھے ہے جبکہ یہاں کے طالبعلم مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے ملک کے دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں جن کے اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں بعض طالب علم مالی حوالے سے تعلیم کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

حکومت بلوچستان صوبے کے تعلیمی اداروں کو بہتر بنانے اور ٹیچروں کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے کیونکہ اب بھی بعض جگہوں پر گھوسٹ اسکولوں کے ساتھ گھوسٹ ٹیچر بھی صرف تنخواہ وصول کرتے ہیں جو کہ صوبے کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی ہے اور نوجوان نسل کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔

بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں اور جو بچے پڑھنے کے لیے اسکول جاتے ہیں وہاں ٹیچرہی موجود نہیں ، اس حوالے سے باقاعدہ رپورٹ بھی شائع ہوچکی ہے۔ 

حکومت ایسے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائے۔ اس سے قبل بھی گھوسٹ ٹیچروں کے خلاف کارروائی کی گئی تھی توبعض نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلیک میلنگ کرکے احتجاج کیا اور دباؤبڑھانے کی کوشش کی۔ چونکہ یہ ایک بہت بڑی مافیا ہے جس کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے ایسے لوگوں کے خلاف جب بھی حکومت کاروائی کرتی ہے تو یہ مختلف حربوں پر اتر آتے ہیں۔ 

بلوچستان میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے سب سے پہلے اسکولوں کی حالت زار بہتر بنانا ناگزیر ہے تاکہ تدریسی عمل کا تسلسل برقرار رہے کیونکہ پرائمری سطح سے کامیابی کے ساتھ نکلنے والے بچے ہی بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔ 

اس لیے نہ صرف پرائمری سکولوں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صوبے کے تعلیمی اداروں کوجدید طرز پر لانے کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ یہاں کے طالبعلم اپنی پڑھائی اپنے صوبے کے اندر ہی مکمل کرسکیں کیونکہ دیگرصوبوں میں جاکر تعلیمی اخراجات پورے کرنا یہاں کے غریب نوجوانوں کے بس کی بات نہیں۔ بلوچستان وسائل سے مالامال صوبہ ہے اب یہ مزید ترقی کی جانب گامزن ہورہا ہے ۔

بڑے بڑے پروجیکٹس یہاں شروع ہورہے ہیں ان سے ملنے والی رقم کو تعلیم پر خرچ کرنے کی اشد ضرورت ہے اس سے بڑافائدہ صوبے کو ہی پہنچے گا کیونکہ یہیں کے نوجوان آنے والے وقت میں صوبے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ 

بلوچستان میں ماضی کی نسبت تعلیمی حوالے سے بہت بہتری آئی ہے مگر مزید بہترتعلیمی نظام اور اداروں کو فعال کرنا موجودہ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ملک کے دیگر شہروں خاص کر لاہور،اسلام آباداور کراچی میں تعلیمی ادارے بہت زیادہ فعال اور جدید طرز سے ہم آہنگ ہیں اسی طرح اگر بلوچستان میں بھی تعلیمی معیار کو اس سطح پر لایاجائے تو وہ دن دور نہیں کہ دیگر صوبوں کے نوجوان یہاں کا رخ کرینگے۔ 

بلوچستان کے وسائل کا صحیح استعمال اگر تعلیم کی بہتری پر کیا جائے توترقی کا خواب حقیقت میں بدل جائے گا۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے گزشتہ روز مختلف وفود سے بات چیت کے دوران کہاکہ خالی اسامیوں پر میرٹ اور اہلیت کے مطابق بھرتیوں کی پالیسی وضع کرلی گئی ہے جسے منظوری کے لئے کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ بلوچستان کے نوجوان مطمئن رہیں، بھرتی کے عمل میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی جائے گی۔ 

گزشتہ دور حکومت میں محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس کے ذریعہ کی جانے والی بھرتیوں میں ہونے والی ناانصافیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور میرٹ پر آنے والے امیدواروں کی دادرسی کی جائے گی، تعلیم ہی وہ واحد راستہ ہے جسے اختیار کرکے ترقی کے اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ 

صوبائی حکومت نے تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لئے شعبہ تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ٹاسک فورس قائم کی ہے جس کی سفارشات کی روشنی میں شعبہ تعلیم میں اصلاحات کے ذریعہ بہتری لائی جائیگی۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کے اس عزم کو یقیناًسراہا جاسکتا ہے کہ تعلیم کے بغیر ہم ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکتے جبکہ شعبہ تعلیم میں ایمرجنسی کے ساتھ ٹاسک فورس کا قیام ایک احسن اقدا م ہے۔ 

جب تک میرٹ کو فوقیت نہیں دی جاتی تب تک تعلیم میں بہتری نہیں لائی جاسکتی جبکہ یونیورسٹیوں کے قیام اور ان کی بہتری کے بعد صوبہ کے نوجوانوں کی حصول تعلیم کیلئے پریشانیوں میں کمی آئے گی جس سے یہاں کے نوجوان اپنے ہی صوبہ میں اعلیٰ اور بہترین تعلیم حاصل کرسکیں گے جس کا سہرا موجودہ حکومت کو جائے گا۔