کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دارومدار اچھی حکمرانی اور بہترین گورننس پر منحصر ہے مگر ہمارے یہاں کبھی بھی اس کامظاہرہ دیکھنے کو نہیں ملا بدقسمتی سے ہمارے یہاں سیاست کو ایک کاروبار کی شکل دی گئی جس کی مثال ہمیں واضح طور پر ماضی کی طرز حکمرانی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
ملک سے وسائل کی لوٹ مار کرکے ساری دولت بیرون ملک منتقل کرتے گئے جبکہ عوام غریب سے غریب تراور حکمران امیر سے امیر ترہوتے گئے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں طبقاتی لکیر کھینچ دی گئی جس میں ایک طرف اشرافیہ جو عرصہ دراز سے حکمرانی کرتے آرہے ہیں ۔
دوسری طرف وہ عوام جنہیں تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا یہا ں تک کہ تعلیم،صحت، روزگار کاحصول تک مشکل ہو گیا ہے۔ عوام پر مہنگائی کا بوجھ لاد ھ دیا گیا ،قرض کے پیسے عوام سے ہی وصول کئے جاتے رہے مگر یہ حساب کسی کے پاس بھی نہیں کہ ماضی کے ادوار میں جتنے بھی قرضے لئے گئے انہیں کس پر اور کہاں خرچ کیا گیا۔ اب تک ہمارے نظام میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے حکمرانوں کامائنڈ سیٹ اسی طرح ہی کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے ۔
کیونکہ ہمارے پاس گورننس کا بہترین ڈھانچہ موجود ہی نہیں۔ بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جہاں اربوں روپے کی کرپشن ہوتی رہی حکمرانوں سے لیکر افسر شاہی تک نے ہر طرح سے اس صوبہ کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔
گزشتہ حکومت نے انسانی وسائل کے لیے خطیر رقم مختص کی مگر زمین پر آج بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا، بارہا ان منصوبوں کی بھی نشاندہی کی گئی جس سے اربوں روپے کمائے گئے بلوچستان کے عوام کو اس سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچا۔
گزشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ کوئی بھی نظام اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک اس کی گورننس کا ڈھانچہ کام نہیں کرے گا۔ جس معاشرے میں گورننس فیل ہوجائے وہاں حکومت اور نظام کام نہیں کرتے۔ حکومت بلوچستان ہمیشہ سے کارکردگی ، استعداد کار، گورننس اور نظام کے حوالے سے تنقید کی زد میں رہی ہے اور اس حوالے سے پایا جانے والا تاثر حقیقت پر مبنی بھی ہے۔
مخلوط صوبائی حکومت محسوس کرتی ہے کہ گورننس کی بہتری کے ذریعہ نظام میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے، تبدیلی کے اس عمل میں عوام بالخصوص نوجوانوں کا بڑا کردار ہوگا۔کسی بھی کاروبار، ادارے اور حکومت کو چلانے کے لئے بہترین گورننس کا قیام ضروری ہے، لوگ مسائل کے حل کے لئے نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
گورننس نہ ہونے کی وجہ سے اربوں اور کھربوں روپے کی مالیت کے منصوبوں کی افادیت عوام تک نہیں پہنچتی، وسائل عوام کے ہیں اور عوام نے خود بھی فیصلہ کرنا اور کھڑے ہونا ہے کہ ان کے پیسے کا ضیاع نہ ہوتبھی صحیح معنوں میں تبدیلی آسکتی ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ اسکیمیں صرف اس لئے نہیں بننی چاہئیں کہ کسی فرد یا چند افراد کو اس کا فائدہ پہنچے بلکہ انہیں اس بنیاد پر بنانا چاہئے کہ ان کا فائدہ عوام کو پہنچے۔ البتہ اس تمام عمل سے سب ہی واقف ہیں کہ بلوچستان میں جتنی بھی اسکیمیں سابق ادوار میں یہاں کے عوام کیلئے اعلان کی گئیں ان میں ماسوائے کرپشن کے اور کچھ نہیں کیا گیا اگر تھوڑی سی رقم بھی صوبہ میں خرچ کی گئی ہوتی تو آج عوام کی حالت میں کم ازکم بہتری ضرور نظر آتی۔
موجودہ حکومت نے جس طرح اقتدار سنبھالتے ہی ان معاملات کی نشاندہی کی ہے تو اس کے ساتھ ہی عوام کی بڑی امیدیں بھی وابستہ ہوگئی ہیں کہ گورننس پر خاص توجہ دیتے ہوئے بلوچستان میں اچھی حکمرانی اور بہترین گورننس کے ذریعے ایک نئی تبدیلی لائی جائے گی اور عوام کے ساتھ مکمل انصاف کیاجائے گا اور ترقی کے ہر عمل میں یہاں کے لوگوں کو شامل کیاجائے گا۔
بلوچستان میں بہترین گورننس کی ضرورت
وقتِ اشاعت : November 20 – 2018