پاکستان میں کوئی ایسا دور نہیں گزرا جس میں کرپشن نہیں ہوئی ہو، ہمارے یہاں اس میں کوئی عار محسوس ہی نہیں کی جاتی ۔جب دنیا میں پانامہ لیکس سامنے آئی تو بہت سے ممالک میں ایک ہلچل مچی، بعض ممالک کے حکمرانوں نے کرسی کو خیربادکہہ دیا چونکہ وہاں حکمرانوں کو سب سے زیادہ اپنی عزت نفس پیاری ہوتی ہے۔
جب تک کرپشن کا کیس چل رہا ہے اور تحقیقات کے بعد تمام انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے اس وقت تک وہ خود کو حکمرانی کے قابل نہیں سمجھتے ۔درحقیقت یہ عوامی ردعمل اور نفسیات کا بھی اثر ہے کیونکہ وہاں کے عوام ایسے حکمرانوں کوقطعاََ منصب پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے جو ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں اور یہی ایک تربیت ہے جو سڑکوں پر بھی نکل کر انسانی اقدار کو خاطر میں لاتے ہیں۔
مگر ہمارے یہاں یہ معمول کی بات ہے کہ ملک کے دارالحکومت کو ہی بند کردیا جاتا ہے، ملک کے تمام مرکزی شہروں میں احتجاج کے بہانے لوٹ مار،جلاؤگھیراؤ، املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے جو ہمارے اندازحکمرانی اور عوامی تربیت کی نشاندہی کرتا ہے۔
ملک میں جب تک انصاف وسچ پر مبنی حکمرانی کارواج قائم نہیں کیاجاتا تب تک ہمیں نہ صرف کرپٹ حکمران ملیں گے بلکہ اسی طرح کے رویے سامنے آئینگے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اپنے ملائیشیا کے دورہ کے موقع پر کہاکہ ملائیشیا اور پاکستان کی حکومتوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ عوام نے ہمیں کرپشن کے خلاف اقتدار دیا ہے، سیاحتی مراکز کے قیام کے لیے ملائیشیا تعاون کرے گا اور ہم ملائیشیا کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے، ہماری اپوزیشن جلدی میں ہے کہ حکومت گر جائے۔
جو زیادہ شور مچارہے ہیں انہیں پتا ہے کہ انہوں نے جیلوں میں جانا ہے،ہم کوئی این آر او نہیں دیں گے اور نہ ہی چارٹر آف ڈیموکریسی پر مک مکا کریں گے، ایک ایک کو پکڑ کر جیلوں میں ڈالنا ہے، کہتا ہوں چوروں کو جیل میں ڈالنا ہے تو اپوزیشن کھڑی ہوجاتی ہے۔
میں نے اپوزیشن کا نام ہی نہیں لیا، جب سے حکومت آئی ہے سب عجیب طرح جمہوریت بچانے کے لیے کھڑے ہورہے ہیں،ہم بہت پیچھے رہ گئے اور دنیا آگے چلی گئی،60 کی دہائی میں ملائیشیا کے شہزادے ایچی سن کالج میں پڑھتے تھے،اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ خطے میں کوئی ملک پاکستان کا مقابلہ کرسکے گا۔
ہمارے ملک کی مثال دی جاتی تھی ہم سب سے تیزی سے ترقی کررہے تھے۔ قومیں اونچ نیچ کا سامنا کرتی ہیں، اداروں اور انسان کی زندگی میں بھی ایسا ہوتا ہے،وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں منی لانڈرنگ کو روکنا ہے، ہر سال دس ارب ڈالر منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر جاتے ہیں، محنت کش ملک میں پیسے بھیجتے ہیں اور بڑے ڈاکو یہاں سے باہر بھیج دیتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے ملائیشیا کے انسداد بدعنوانی کمیشن کا دورہ کیا جہاں ملائیشیا کے چیف کمشنر برائے انسداد بدعنوانی کمیشن نے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔عمران خان نے اس موقع پر کہاکہ پاکستان ملائیشیا کی بدعنوانی کے خلاف مہم سے سیکھنا چاہتا ہے۔
پاکستان کی 21 کروڑ کی آبادی میں ہماری برآمدت 24 ارب ڈالر ہیں جب کہ 4 کروڑ کے ملائیشیا کی برآمدات 220 ارب ڈالر ہیں کیونکہ انہیں لیڈر مل گیا جو کم وسائل سے بھی قوم کو اوپر لے گیا۔
ہمارے ہاں انسان سڑکوں پر سوتے ہیں اس لیے ہماری حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہمیں ان کی ذمہ داری لینی ہے، جہاں لوگ سڑکوں پر سوتے ہیں ان کے لیے شیلٹر ہوم بنائیں گے، ہم یہاں نہیں رکیں گے، آئندہ ہفتے غربت کم کرنے کا پروگرام لارہے ہیں، چین سے سیکھ کر لوگوں کو غربت سے نکالنے کا پیکج لارہے ہیں۔
ہمیں سرمایہ کاری لانا ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کے پاس سرمایہ کاری کے لیے پیسہ ہے، ہم نے ملک میں صرف طرز حکمرانی ٹھیک کرنا ہے، سرمایہ کاروں کے لیے آسانی پیدا کریں گے، وزیراعظم کے آفس میں الگ سے ایک ڈیسک ہوگی جو سرمایہ کاروں کے مسائل حل کرے گی۔
سرمایہ کاروں کو پیسہ بنانے کے لیے مدد کریں گے تاکہ نوکریاں پیدا کی جاسکیں، اس سے لوگوں کو نوکری کرنے باہر نہیں جانا پڑے گا۔وزیراعظم عمران خان نے جس طرح سے کرپشن اور سرمایہ کاری کیلئے پالیسی کی بات کی ہے ۔
اگر اسے مستحکم بنیادوں پر رکھا جائے اور اسے غیر سیاسی بنایاجائے تو کوئی شک نہیں کہ ملک سے نہ صرف بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا بلکہ ہم ایک نئے سفر کی جانب بڑھیں گے ۔ دنیا میں ترقی یافتہ ممالک میں سب سے مضبوط ان کے ادارے ہیں اور دیرپا پالیسیاں ہیں جن میں بہ مشکل ترمیم کی جاتی ہے، ہمیں بھی مستقل مزاجی سے آگے بڑھنا ہے۔
پالیسیوں کا تسلسل ،ترقی کا زینہ
وقتِ اشاعت : November 24 – 2018