|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2018

تربت :  بلوچی زبان کے معروف ادیب ، دانشور، تاریخ دان اورمحقق واجہ جان محمددشتی کابلوچستان اکیڈمی تربت کادورہ ، ادیبوں اورشاعروں کے ساتھ علمی نشست ،ہفتہ کے روز بلوچی زبان کے معروف ادیب ، دانشور، تاریخ دان اورمحقق واجہ جان محمددشتی نے بلوچستان اکیڈمی تربت کادورہ کیا۔

اکیڈمی کی جانب سے مدعوادیبوں، شاعروں اوردیگرنوجوان لکھاریوں کی ایک کثیرتعدادنے شرکت کی ، واجہ جان محمددشتی نے جدیدبلوچی شاعری میں زبان کے استعمال پراظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ جدیدیت یہ نہیں ہے کہ زبان کومسخ کیاجائے بلکہ اسے تخلیقی طورپربرتناچاہیے ،شیکسپیئراورورڈزورتھ سادہ زبان استعمال کرکے اپنے تخلیقی جوہردکھاتے تھے، بلوچ ادیبوں اورتخلیق کاروں کافرض ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کوایک صحت منداورتعمیری زبان اورادب منتقل کریں۔

انہوں نے کہاکہ 1960کی دہائی میں بلوچی زبان میں سیدظہورشاہ ہاشمی اورعطاشاداوردیگرنے انفرادی طوراصطلاح سازی کی جن میں کئی آج استعمال ہورہے ہیں، بلوچی زبان میں ماسٹرآف فلاسفی اورڈاکٹرآف فلاسفی میں مقالوں کامعیارغیرتسلی بخش ہے ۔

بلوچستان یونیورسٹی اورتربت یونیورسٹی میں بلوچی شعبوں کومزیدحکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے ، انہوں نے کہاکہ حکومت کوچاہیے کہ وہ بلوچی زبان وادب کے لئے قائم اداروں کوفنڈزکااجراکرے اورجنہیں فنڈزجاری کیاگیاہے ان کے فنڈزمیں اضافہ کیاجائے تاکہ بلوچی زبان وادب کی ترقی وترویج کاکام تسلی بخش طورپرکیاجاسکے۔

، اس موقع پربلوچستان اکیڈمی تربت کے چیئرمین نے ان کاشکریہ اداکیا، اس موقع پرغنی پرواز، ارشادپرواز،یوسف عزیزگچکی ، واجہ عبیدشاد،ڈاکٹرغفورشاد،ڈاکٹرمحسن بالاچ ،عارف عزیز،مقبول ناصر، قدیرلقمان ، اصغرمہرم ، عابدعلیم ،سلیم ہمراز،معروف مترجم فضل بلوچ ا،حمدعمر،راشدحسرت ، جمال پیرمحمد، شاکرلعل ، مہیم دشتی ، شیہک لعل ، جمال منظور،زمان خورشیداوردیگرنے شرکت کی ، نشست کے اختتام پرواجہ جان محمددشتی کواکیڈمی کی شائع کردہ نئی کتابوں کاسیٹ پیش کیاگیا۔