|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2018

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں غربت مٹاؤ پروگرام کے تحت عالمی بینک سے 4 کروڑ 20 لاکھ ڈالر قرض لینے کی منظوری دی گئی۔بنی گالہ میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اقتصادی مشاورتی کونسل کا اہم اجلاس منعقد ہوا ۔ 

اجلاس میں وزیراعظم کو ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال اور 100 روزہ پلان کے تحت اہداف پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں اکنامک ایڈوائزی کونسل کے بنائے گئے سب گروپس کی جانب سے رپورٹس پیش کی گئیں جب کہ حکام نے روزگار کی فراہمی، سوشل سیفٹی پروٹیکشن اور تجارتی توازن کے اہداف کی تکمیل کی سفارشات پر بریفنگ دی۔اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں معاشی بہتری کے لیے وسط مدتی ڈھانچہ جاتی فریم ورک کی منظوری دی گئی۔

اس کے علاوہ کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے سماجی تحفظ فریم ورک کی منظوری بھی دی گئی۔اطلاعات کے مطابق اجلاس میں تعلیم، صحت اور غربت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جامع فریم ورک کے ساتھ غربت مٹاؤ پروگرام کے تحت عالمی بینک سے 42 ملین ڈالر قرض لینے کی منظوری بھی دی گئی، قرض لینے کی تجویز گزشتہ حکومت نے عالمی بینک کو بجھوائی تھی۔ 

اقتصادی مشاورتی کونسل کے اجلاس میں نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے لیے 5 ارب روپے مختص کرنیکی منظوری بھی دی گئی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ منصوبے کے لیے رقم پی ایس ڈی پی کے تحت جاری کی جائے گی۔ 

اقتصادی مشاورتی کونسل نے نوجوانوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے جامع پلاننگ کا فریم ورک بنانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت نوکریوں کی فراہمی اور برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی جلد تیار کی جائے گی۔

اس کے علاوہ اجلاس میں ایف بی آر کے پالیسی ونگ کو بھی الگ کرنے اور ملک میں نیوٹریشن پروگرام فوری طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیراعظم میڈیا آفس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم نے معیشت کیلئے درمیانے مدت کے ڈھانچہ جاتی اصلاحات فریم ورک کے ضمن میں پالیسی سفارشات کی منظوری بھی دی۔

اس حوالے سے کوئی دورائے نہیں کہ سابقہ ادوار میں لئے گئے قرض اور کرپشن کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہوکر رہ گیا ہے حالانکہ ہمارے پاس وسائل بے تحاشہ ہیں مگر انہیں کارآمد بنانے کیلئے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی گئی, دعوے تو بہت کئے گئے کہ بڑے بڑے منصوبوں کی بنیاد پر ملک میں خوشحالی آئے گی۔ 

گزشتہ حکومت نے ٹرین ، میٹرو بس جیسے منصوبے بنائے جس کی قطعاََ مخالفت نہیں کی جاسکتی لیکن جب ملک میں معاشی صورتحال بہتر ہو ، بیروزگاری اور مہنگائی کاخاتمہ ہوچکا ہو،اور تمام بنیادی سہولیات عوام کو میسر آرہے ہوں تو ایسے منصوبے شروع کیے جاسکتے ہیں ۔

بدقسمتی سے انسانی وسائل کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی منافع بخش شعبوں میں سرمایہ کاری کی گئی ۔ بیرونی سرمایہ کاری کیلئے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی اس پر توجہ دی گئی۔ 

موجودہ حکومت کے سو روز تو سب کے سامنے ہیں لیکن عوام یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ سابقہ حکومتوں کی طرح صرف دعوے نہیں بلکہ عوامی ترقی کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائینگے اور قرضوں کا بوجھ عوام پرمزید نہیں ڈالا جائے گا ۔

بلکہ سرمایہ کاری اور منافع سے قرضہ ادا کیاجائے گا جبکہ عوام کو بھرپورسہولیات فراہم کی جائیں گی جس سے عوام میں موجود بے چینی ختم ہوجائے جوعرصہ دراز سے ان میں پائی جاتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ چیلنجز سے اس وقت نمٹا جاسکتا ہے جب حکومت بہترین پالیسی بنائے گی اوراپنائے گی ۔