|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2018

کوئٹہ : وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے رواں سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کی حیثیت سے عالمی میڈیا کو اپنے دئیے گئے ایک انٹرویو میں بلوچستان کے عوام سے صوبے میں پانی کی قلت کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ 

جام کمال خان کا کہنا تھا ’’میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی طرح بلوچستان کا بھی سب بڑا اور سنگین مسئلہ پانی کی قلت ہے۔ اگر ہماری پارٹی اقتدار میں آئی تو ہم اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے تمام وسائل استعمال کریں گے اور بیرونی ممالک سے بھی ماہرین کی خدمات حاصل کرینگے کیونکہ دنیا میں بہت سے ادارے پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے طریقہ کار پر کام کررہے ہیں ‘‘ ۔


انتخابات کے بعد بلوچستان میں انکی جماعت باپ نے دوسری جماعتوں کے ساتھ ملکر مخلوط حکومت قائم کرلی ہے جس کی سربراہی جام کمال خان خود رہے ہیں گو کہ انکی حکومت کو تین ما ہ کا عرصہ ہوا ہے لیکن عوام انہیں اپنے اس وعدے کی یاد دہانی کرارہے ہیں جو انہوں نے انتخابات سے قبل سیاسی جلوسوں اور پارٹی کے منشور میں عوام سے کیا تھا ۔

کوئٹہ میں گرتی ہوئی سطح آب کی وجہ سے پانی کی قلت کا مسئلہ کافی عرصے سے درپیش ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ موسمی تبدیلوں کی وجہ سے کم بارشوں ، برف باری اور زیر زمین پانی کے ذخائر نے دریغ استعمال پانی کی قلت کے مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں ۔

ماہرین کہنا ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو کوئٹہ کی بڑی آبادی آئندہ دس سالوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائے گی ۔ کوئٹہ کے گلی محلوں میں خواتین ، مرد اور بچے صاف پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں اور جہاں کئی ٹیوب ویل نصب وہاں پانی کے حصول کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں ۔ 

گلشن ٹاون کے رہائشی سرفراز احمد کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے نواحی علاقے سبزل روڈ کے عوام کو گزشتہ 10سال سے اس سنگین مسئلے کا سامنا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ میرے والد ریٹائرڈ ملازم ہیں جنکی قلیل پینشن سے ہمارا کنبہ مشکل سے کررہا ہے ۔ 

قلت آب کے باعث ہر مہینے میں تین سے چار پانی کے ٹینکر منگونے پڑاتے ہیں جو ہماری موجودہ مالی حالت میں ایک بڑا بوجھ ہے کیونکہ پانی کا ٹینکر ایک ہزار سے 15سو روپے ملتا ہے ‘‘اس سلسلے میں محکمہ واسا بلوچستان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کو یومیہ 5 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے جبکہ واسا اپنے وسائل میں صرف 3 کروڑ گیلن پانی فراہم کرنے کی سکت رکھتا ہے۔ 

اس وقت واسا کے چار سو ٹیوب ویلوں میں سے30 مختلف وجوہات کی وجہ سے بند پڑے ہیں ایم ڈی واسا ولی محمد بڑیچ کا کہنا ہے کہ ’’کے مطابق شہر کو کوئٹہ کینٹ سے بھی پانی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ تمام خراب ٹیوب ویلوں کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں‘‘ ۔

ایک غیر سرکاری تنظیم بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام (بی آ ر ایس پی ) جو پانی کے مسئلے پر بھی کام کررہی ہے کے مینیجنگ ڈائرایکٹر کا کہنا ہے کہ ماہرین بہت پہلے سے اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دلا رہے ہیں لیکن اب تک اس مسئلے حل تلا ش نہیں کیا جاسکا نادر گل کہتے ہیں کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش اور برفباری میں بڑی حدتک کمی اور زیر زمین کے بے جا استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح بڑی تیزی سے گر رہی ہے ۔

نارد گل کا کہنا ہے کہ ’’ کوئٹہ میں زیر زمین پانی 100سے 300فٹ تک دستیاب تھا مگر اب سطح آب خطرناک حد تک گرنے کے نتیجے میں پانی 8سو سے ایک ہزارسوفٹ تک نیچے چلی گئی ہے ‘‘وزیر اعلیٰ مختلف موقوں پر اپنے وعدے کی تجدید کررہے ہیں ۔ 

وزیر اعلیٰ کی فوکل پرسن بشرہٰ رند کاکہنا ہے وزیر اعلیٰ کوعوام سے کئے گئے وعدے یاد ہیں اور حکومت پانی کے مسئلے سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے ۔ بشرہ رند کے مطابق ’’اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر استعمال شدہ پانی کودوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ کو فعال کیا جا رہا ہے جس سے پانی کا ضیاع بھی کم ہوگا اور کوئٹہ میں پینے کے علاوہ دیگر ضروریات کے لیے پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوگی ‘‘ ۔



بلوچستان میں پی ایچ ای کے ادارے کے حکام کا بھی یہ کہنا ہے کہ بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے مانگی ڈیم سمیت چھوٹے پیمانے پر چیک ڈیمز بنائے جارہے ہیں جس سے زیر زمین کی سطح کو بلند کرنے میں مدد ملے گی ۔

بلوچستان میں زیر زمین موجود پانی آئندہ نسلوں کا حصہ ہے لیکن اگر یہی تشویشناک صورتحال جاری رہی تو اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے آئندہ نسلوں کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔