|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2018

ملک کے دیگر صوبوں کا جائزہ لیاجائے تو ہمیں ان کی ترقی میں سب سے اہم کردار سیاسی استحکام کا نظر آتا ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنتی آئی ہے جس سے صوبائی حکومت کی مکمل گرفت نہ صرف محکموں، بیوروکریسی بلکہ انتظامی معاملات میں بھی بھر پور نظرآتی ہے۔ 

پنجاب کی ترقی کو بھی اسی نظر دیکھاجاتا ہے کہ بڑا صوبہ اور ایک اچھی خاصی بجٹ ان کے حصے میں آتی ہے جس سے پنجاب ترقی میں آگے ہے مگر اس جانب کسی صورت توجہ نہیں دی جاتی کہ پنجاب میں ترقی وہاں کے حکمران جماعت کی کمٹنٹ اور گڈ گورننس کی وجہ سے ہے ،اسی طرح کے پی کے میں بھی بلوچستان کی نسبت ترقی کی رفتار تیز ہے۔بلوچستان کی گزشتہ حکومت کے دوران پانچ بجٹ پیش کئے گئے جن میں خاص توجہ تعلیم اور صحت پر دی گئی افسوس کہ ان دونوں شعبوں میں کسی طرح کی بہتری دیکھنے کو نہیں ملتی، آج بھی عوام صحت کی سہولیات سے محروم ہیں ۔

پانچ سالوں کے دوران ایک ٹراما سینٹر ہمارا کارنامہ ہے جبکہ کوئٹہ سمیت دیگر اضلاع میں سرکاری شفا خانوں میں ادویات سمیت کوئی بھی سہولیات میسر نہیں کہ شہریوں کا بہتر طریقے سے علاج کیاجاسکے، ہسپتالوں کی عمارتیں خستہ حالت میں ہیں۔ 

اندرون بلوچستان کی صورتحال تو انتہائی ابتر ہے ، ہسپتالوں میں بمشکل تین سے چار بیڈ ہوتے ہیں، مشینری کا تو نام ونشان تک نہیں، ادویات وہاں دستیاب نہیں جبکہ ڈاکٹرودیگر عملہ کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث مریض کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں مگر یہاں بھی وہ سرکاری ہسپتالوں سے مایوس ہوکر پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں ،اگر یہاں بہتر علاج نہ ملے تو وہ کراچی کا رخ کرتے ہیں ۔ 

حال ہی میں صرف ضلع خضدار سے کینسر کے متعدد کیس سامنے آئے ہیں جن کی بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو موت کی آغوش میں جاچکے ہیں بدقسمتی سے اس بیماری کی وجوہات جاننے کی کسی نے بھی زحمت نہیں کی۔ جس صوبہ میں معمولی بیماریوں سے اموات ہوتی ہیں وہاں اتنی بڑی بیماری کا سامنے آنا ،بیماری سے مقابلے سے قبل ہی مریض کو نفسیاتی طور پر موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ 

بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال بھی جوں کی توں ہے کوئٹہ جو دارالخلافہ ہے یہاں لوگ بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں داخل کرانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ مرکزی شہر میں جب سرکاری اسکولوں کی عمارتیں خستہ حالت میں ہوں اور ساتھ ہی کرایہ کی عمارتوں میں اسکول کھولے گئے ہوں تو وہاں سرکاری تعلیم کے معیار کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے جبکہ اندرون بلوچستان سرکاری اسکولوں میں جانوروں کا باڑھ خانہ بنایا گیا ہے تو کسی جگہ بااثر شخصیات نے اپنے اوطاق بنارکھے ہیں ۔ جس صوبہ میں ان انتہائی اہم شعبوں کی یہ حالت ہوتو ماضی کی حکومت کے گڈگورننس کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ حکومت کے دوران ترقی کا ایسا ڈھول پیٹا گیا جیسے چند دنوں میں بلوچستان دبئی یا سنگاپوربن جائے گا اور یہاں خوشحالی کا ایسا دور ہوگا کہ ہر طرف بلند وبالا خوبصورت عمارتیں نظرآئینگی، سڑکیں، ریلوے نظام، صنعتیں ، بجلی گھر یہ سب کچھ بس چند ماہ کے دوران پایہ تکمیل کو پہنچ جائینگے ، مگر ایسا کہاں ہونا تھا جو ہوتا۔ 

موجودہ حکومت نے اپنے سو روز مکمل کرلئے ہیں یقیناًحکومت اپنی کارکردگی سے مطمئن ہی رہے گی مگرکیا عوام بھی مطمئن ہے کہ ان سودنوں کے دوران جو پروگرام پیش کئے گئے، ان کے نتائج آنے والے وقت میں کتنے دور رس ہوں گے اور عوام کو ان سے کتنا فائدہ ملے گا۔

یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہمارے ہاں سیاسی استحکام ہوگاکیونکہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بننے کی وجہ سے ہمیشہ سیاسی دباؤ برقرار رہتا ہے اور چھوٹے چھوٹے مسائل آگے چل کر بڑے مسائل کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔

لہٰذا ضروری ہے کہ بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بلوچستان کے عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ ملکر پالیسی بنائیں تاکہ دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی بہترین گورننس کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسائل پر قابو پایاجاسکے اور بجٹ کو عوام کی امانت سمجھتے ہوئے اسے ایمانداری سے عوام پر ہی خرچ کیاجائے، اسی طرح ملازمتوں میں بھی میرٹ کو ترجیح دے کر نوجوانوں میں موجود بے چینی کو دور کیاجائے۔