|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2018

ملکمیں انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور تقریباً ایک دن میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں دس روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔یہی نہیں ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ ایک دن میں اور ایک سال میں ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ جمعے کو ڈالر کی قیمت میں ایک دن میں پانچ فیصد جبکہ ایک سال میں 32 فیصد اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد اس کی قیمت 142 روپے ریکارڈ کی گئی۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کاکہناہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنا ضروری تھا۔یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ آنے والے دنوں میں ڈالر مزید اوپر کی جانب جائے گا یا پھر نیچے کی طرف آئے گا مگر جب تک تجارتی خسارہ بڑھتا رہے گا ڈالر مہنگا ہوتا رہے گا۔

ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق ڈالر کی قدر میں ایک سال کے دوران 32 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔اس اضافے کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں تو ان کی ایک شرط تو یہ بھی ہے کہ ڈالر کو 145 روپے تک لے کر جانا ہو گا،ہماری حکومت آئی ایم ایف کے پاس چلی گئی ہے اور اعلان کرنے سے قبل اس کی شرائط کو پورا کیا جا رہا ہے۔ایسا نہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں ہی ڈالر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا ہے، بلکہ ماضی میں بھی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا رہا ہے لیکن اتنا اضافہ پہلی بار ہوا ہے۔

رواں سال مارچ میں انٹر بینک تجارت میں ڈالر کی قدر بڑھ کر 115.50 روپے تک پہنچ گئی تھی جس پر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں اور ماہرین نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے کیے گئے وعدے ہیں۔پھر رواں سال ہی جون کے مہینے میں ڈالر مزید بڑھا اور ملکی ‘تاریخ کی بلند ترین سطح 121 روپے پر پہنچ گیا تھا۔

پاکستان میں نگران حکومت کے دور میں الیکشن کے انعقاد سے قبل امریکی ڈالر 118 روپے سے بڑھ کر 130 تک پہنچ گیا تھا لیکن الیکشن کے بعد ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 122 روپے میں فروخت ہونے لگا۔

مگر بات یہاں نہ رکی اور موجودہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے فیصلے کے فوراً بعد ہی ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 138 روپے تک پہنچ گیا لیکن پھر قدرے کم ہونے کے بعد 133 پر آکر رک گیا تھا۔ماہرین کے مطابق عام آدمی کی زندگیوں پر اس اضافے کا بہت اثر پڑنے والا ہے۔ 

افراط زر میں جو اب اضافہ ہوا ہے اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوگااور ساتھ ہی ساتھ بے روزگاری بھی بڑھے گی۔سال 2019 پاکستانی عوام اور خاص طور پر غریبوں اور مڈل کلاس کے لیے بہت برا گزرے گا۔اب تک ڈالر کی جس طرح اڑان دیکھنے کو مل رہی ہے یقیناًاس سے عوام پر زیادہ بوجھ آئے گا جس کے بعد روزمرہ استعمال ہونے والی ہر چیز مہنگی ہوجائے گی اور ساتھ ہی ٹیکسز بھی بڑھتے جائینگے جس کااثر روزگار پر پڑے گا اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ نئی حکومت کی جانب سے اب تک ایسی معاشی پالیسی تو سامنے نہیں آئی جس پر اطمینان کیاجاسکے ۔

اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ماضی میں بھی ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچی تھی اور اس دوران بھی بہترین معاشی منصوبہ بندی نہ کی گئی کہ صورتحال کو کنٹرول کیاجاسکے۔ اب یہ نئی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشی پالیسی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ قرض لینے کے جو شرائط ہیں اس کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے ایک درمیانہ راستہ اختیار کرے وگرنہ یہ انتہائی مشکل ترین وقت ثابت ہوگا جس کے برائے راست اثرات غریب عوام پر پڑینگے۔ 

عوام پر پہلے سے ہی بہت زیادہ بوجھ لاد دیاگیا ہے جبکہ انہیں کوئی سہولیات میسر نہیں ۔مہنگائی کا طوفان عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گالہٰذا ضروری ہے کہ عوامی مفادات کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس طوفان سے ان کو بچایاجائے۔